پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں گذشتہ روز شہر کے ایک معروف محلہ منصور آباد میں لگی ہوئی بھٹی ڈائننگ کا بوائلر پھٹ جانے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو سے بڑھ کر چار ہو گئی۔ بھٹی ڈائننگ کا بوائلر زوردار دھماکے سے پھٹنے سے فیکٹری کی دیواریں مکمل طور پر گر گئیں اور اس کمرے کی چھت اڑ گئی جس میں یہ بوائلر لگے ہوئے تھے اور کام کرنے والے مردوزن اور بچگان جواس ڈائننگ یونٹ میں روزانہ کی بنیاد پر اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ان کی اکثریت دیواروں اور زمین بوس ہونے والے کمرے کی چھت کے نیچے آ گئی۔ دو مزدور محمد علی اور انعام الرحمن موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ انعام الحرمن کے 30سالہ بیٹے فیضان انعام، 23سالہ ظہور احمد اور دیگر مرد و خواتین جو اس فیکٹری میںمحنت مزدوری پر معمور تھیں بلکہ ان سے بعض والدین اپنے نوعمر بچوں کو بھی بھٹی ڈائننگ میں ملازمت کے لئے لائے ہوئے تھے۔ یہ سب پہلے روز کے بوائلر دھماکے میں زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں داخل کرائے گئے تھے۔ان میں سے 30سالہ فیضان انعام اور 23سالہ ظہور احمد جانبر نہیں ہو سکے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک مزدور اللہ دتہ کی حالت اس وقت بھی خطرے میں بیان کی جاتی ہے جبکہ باقی محنت کشوں کو زیادہ تر ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔ منصور آباد شہر میں ایک قدیمی محلہ ہے اور اسے سرکاری طور پر صرف رہائش کے لئے بنایا گیا ہے لیکن فیصل آباد کے صنعتی تشخص کی وجہ سے اس شہرمیںچونکہ کپڑے کی صنعت، دستی کھڈیوں سے پاور لومز اور اس کے ساتھ ہی ڈائننگ اور سپننگ فیکٹریوں کی صورت میں زیادہ تر اندرون شہر میں پھیلی ہوئی ہے لہٰذا منصور آباد میں بھی بعض افراد نے اپنے گھروں کو صنعتی یونٹوں اورفیکٹریوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ منصور آباد بلکہ پورے شہر کے کارخانوں کو اندرون شہر سے حکومت کی طرف سے بنائے گئے صنعتی زون میں منتقل کیا جائے۔جنرل پرویزمشرف کے دور میں چونکہ صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نظام بھی قائم تھا لہٰذا سٹی ناظم رانا زاہد توصیف نے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد اس امر کا اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے ایک سال کے اندر اندر اندرون شہر کی صنعتوں کو شہر سے باہر کے علاقوں میں منتقل کرا دیں گے۔ اس زمانے میں موٹروے تھری سے قریبی صنعتی یونٹ قائم کیا گیا تھا لہٰذا رانا زاہد توصیف نے شہر میں بڑی فیکٹریوں اور ملوں کے مالکان کو شہر کے وسیع و عریض صنعتی زون میں پلاٹ خریدنے اور اپنے صنعتی یونٹ وہاں منتقل کرنے کی باقاعدہ ترغیب دینا شروع کر دی تھی۔ فیصل آباد کا یہ صنعتی زون کم و بیش پچاس مربع زمین پر قائم کیا جا رہا تھا جس میں اپنی بجلی پیدا کرنے اور مزدوروں کے لئے رہائشی کالونیاں، ہسپتال اور ان کے بچوں کے لئے تعلیمی سکول بلکہ چھوٹے اور شیرخوار بچوں کے لئے ”ڈے کیئر“ سنٹر قائم کرنے کا بھی عندیہ دیا جا چکا تھا۔ فیصل آباد نے قیام پاکستان کے بعد جس تیزی سے ترقی کی ہے اور یہ شہر جس تیزی سے چاروں اطراف میں پھیلا ہے یہ سب ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے۔ فیصل آباد پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے جسے پاکستان میں صنعت و حرفت کا گہوارہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا مانچسٹر بھی کہا جاتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ فیصل آباد مانچسٹر برطانیہ کا جڑواں شہر قرار دیا جاچکا ہے۔ فرق یہی ہے کہ مانچسٹر میں کارخانے شہر کی آبادی سے دور اور اس کے مضافات میں قائم ہیں جبکہ فیصل آباد میں جس طرح اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے رہائشی کالونیوں کی سرکاری طور پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور جس ڈویلپر کو موقع ملا اس نے چند ایکڑ زرعی زمین حاصل کر کے وہاں رہائشی کالونی کاٹ دی اور اکثر رہائشی کالونیوں میں رہائشی کم اور چھوٹی صنعتوں والے زیادہ لوگ آئے۔ فیصل آباد شہر میں بڑی صنعتوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر فیکٹری ایریا کو اب اندرون شہر کا علاقہ تسلیم کیا جائے تو اس علاقے سے لائلپور کاٹن فیکٹری اور گنیش ملز سمیت ایک صدی پہلے کے تمام صنعتی یونٹوں کو اب شہر کے مخصوص صنعتی زون میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ رفحان میز پراڈکٹس کے کارخانے کینال روڈ اور سمندری روڈ سے مشروبات تیار کرنے والے یونٹوں کو بھی سمندری روڈ سے شہر سے باہر ہٹانے کی ضرورت ہے اور ان سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصل آباد شہر کو کپڑے کی صنعت کے حوالے سے اس کی شناخت سے محروم کئے بغیر اس کی ٹیکسٹائل ملز کو صنعتی زون میں منتقل کیا جائے۔ کوہ نور ٹیکسٹائل ملز اور پریمیئر ملز اس شہر سے ختم ہو چکی ہیں اور خصوصی طور پر کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کا خالی کردہ علاقہ ان دنوں شہر کی سب سے زیادہ پوش آبادی کوہ نور ٹا¶ن کے علاوہ جڑانوالہ روڈ کے تجارتی پلازوں کی صورت میں شہر کی سب سے اہم اور مہنگی جگہ بن چکا ہے۔ اگر کریسنٹ ملز، نشاط ملز، زینت ملز سرگودھا روڈ کے دیگر کارخانہ جات اور ان سے بھی زیادہ مقبول روڈ پر قائم صنعتی یونٹوں، پراسسنگ، ڈائننگ اور سپننگ کے کارخانوں کو صنعتی زون میں تبدیل کرکے سمندری روڈ کے عقب میں واقع اس مقبول روڈ پر نئی شاپنگ مارکیٹ تعمیر کر دی جائے تو ان کارخانوں کے شہر سے باہر منتقل کرنے میں جو اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے صنعت کاروں کو ان کی خالی کردہ فیکٹریوں کی جگہ تعمیر ہونے والے کمرشل پلازوں سے ملنے والے منافع میں وہ تمام اخراجات پورے ہو جائیں گے۔کچھ چھوٹے بڑے کارخانے جھنگ روڈ،جڑانوالہ روڈ، ستیانہ روڈ وغیرہ پر مزید سامنے آ چکے ہیں اور اب یہ صنعتی علاقے رہائشی علاقوں میں شامل ہو گئے ہیں لہٰذا شہر کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کا یہی تقاضا ہے کہ ان سب کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان صنعتی زون میں یا شیخوپورہ روڈ پر فیصل آباد شہر سے پچیس تیس کلومیٹر دور نئی جگہیں خرید کر اپنے صنعتی یونٹ وہاں تبدیل کر لیں۔ منصور آباد میں بھٹی ڈائننگ کا بوائلر پھٹنے سے چار انسانی جانوں کا ہونے والا ضیاع اس لحاظ سے معنی خیز ثابت ہوا ہے کہ اس کے بعد منصور آباد کے رہائشیوں کی طرف سے صنعتوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے لئے جس جلوس اور جن ریلیوں کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا ہے اس نے فیصل آباد شہر کے ایک گھمبیر مسئلہ کو پوری شدت سے اٹھا دیا ہے۔شہر کو چھوٹی بڑی صنعتوں بلکہ پاور لومز سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ فیصل آباد کے اکثر علاقوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت کے باعث توانائی کے بحران کا سامنا رہتا ہے اور اگر حکومت صنعتی زون کے علاوہ شہر کی پچیس ہزار سے زائد پاور لومز کو بھی بیرون شہر کسی مخصوص ایریا میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر کے اس چھوٹی صنعت کو بھی فیصل آباد شہر سے باہر نکلوا دے تو یہ پاور لومز کی بقا اور صنعتی اداروں کا پہیہ رواں رکھنے کے لئے ایک اہم اقدام ہو گا۔ لوگوں نے بھٹی ڈائننگ فیکٹری کے بوائلر کے پھٹنے سے منصور آباد کے اس چھوٹے سے صنعتی یونٹ کا رقبہ منصور آباد کے مین بازار المعروف 40گز چوڑے بازار میں گرنے کا نوٹس لیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ضلعی حکومت یا مقامی انتظامیہ اندرون شہر کے تمام صنعتی یونٹوں کو سیل کرکے انہیں ایک مخصوص مدت میں ان صنعتی یونٹوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کا وقت دے اور اس کے بعد خود ان صنعتی یونٹوں کی عمارتوں اور تنصیبات کو ان کے موجودہ مقامات پر بلڈوز کر دے۔ اگر ضلعی انتظامیہ ان صنعتی یونٹوں کو بلڈوز نہیں کرے گی تو بہت جلد یہ شہر ان صنعتوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے سارے کا سارا بلڈوز ہو کررہ جائے گا۔
اندرون شہر کے صنعتی ادارے فیصل آباد شہر سے کب منتقل ہوں گے؟
Mar 06, 2013