کراچی شہر سارا جل رہا ہے
اثاثہ یہ ہمارا جل رہا ہے
کوئی کیا امن کے ساحل پہ اترے
سمندر کا کنارا جل رہا ہے
یہ کس کا خون ہے کیوں بہہ رہا ہے
دھواں جلتے گھروں کا کہہ رہا ہے
ہیں کیوں شیطان سارے عافیت سے
ستم انساں کے انساں ہو رہا ہے
جو ہنستی تھی وہ بستی رو رہی ہے
قیامت کیوں یہ برپا ہو رہی ہے
حکومت بھول کر ساری خطائیں
گھروں میں لمبی تانے سو رہی ہے
جو گھر بیٹھے مذمت کر رہے ہیں
وہ کیا لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں
یہ تو مستعفی ہونے کی گھڑی ہے
مزے سے وہ حکومت کر رہے ہیں
کبھی یہ بم نہیں محلوں پہ گرتے
محافظ چار سو جن کے ہیں پھرتے
بسے رہتے ہیں پھولوں کی مہلک میں
یہ گہوارے نہیں شعلوں میں گھِرتے
قیام امن کے جو بھی ہیں داعی
وہ کرکے انتظام اپنا دفاعی
بنے بیٹھے مچانوں میں ہیں بہرے
نہیں سنتے غریبوں کی دہائی
یہ بے حس لوگ جب تک حکمراں ہیں
نہتے عام شہری بے اماں ہیں
کوئی ان سے کٹہرے میں یہ پوچھے
کہ دہشت گرد کیوں سارے یہاں ہیں
کوئی اس بار جو ان کو چنے گا
گلے کا اپنے پھندہ خود بنے گا
بکھر جائیں گے بن کر ریشہ ریشہ
جب ان کو وقت کا دھنیا دھنے گا