کراچی جل رہا ہے

Mar 06, 2013

ریاض الرحمن ساغر

کراچی شہر سارا جل رہا ہے
اثاثہ یہ ہمارا جل رہا ہے
کوئی کیا امن کے ساحل پہ اترے
سمندر کا کنارا جل رہا ہے
یہ کس کا خون ہے کیوں بہہ رہا ہے
دھواں جلتے گھروں کا کہہ رہا ہے
ہیں کیوں شیطان سارے عافیت سے
ستم انساں کے انساں ہو رہا ہے
جو ہنستی تھی وہ بستی رو رہی ہے
قیامت کیوں یہ برپا ہو رہی ہے
حکومت بھول کر ساری خطائیں
گھروں میں لمبی تانے سو رہی ہے
جو گھر بیٹھے مذمت کر رہے ہیں
وہ کیا لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں
یہ تو مستعفی ہونے کی گھڑی ہے
مزے سے وہ حکومت کر رہے ہیں
کبھی یہ بم نہیں محلوں پہ گرتے
محافظ چار سو جن کے ہیں پھرتے
بسے رہتے ہیں پھولوں کی مہلک میں
یہ گہوارے نہیں شعلوں میں گھِرتے
قیام امن کے جو بھی ہیں داعی
وہ کرکے انتظام اپنا دفاعی
بنے بیٹھے مچانوں میں ہیں بہرے
نہیں سنتے غریبوں کی دہائی
یہ بے حس لوگ جب تک حکمراں ہیں
نہتے عام شہری بے اماں ہیں
کوئی ان سے کٹہرے میں یہ پوچھے
کہ دہشت گرد کیوں سارے یہاں ہیں
کوئی اس بار جو ان کو چنے گا
گلے کا اپنے پھندہ خود بنے گا
بکھر جائیں گے بن کر ریشہ ریشہ
جب ان کو وقت کا دھنیا دھنے گا

مزیدخبریں