سپریم کورٹ رجسٹری میں سانحہ عباس ٹاؤن ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کررہا ہے. چیف جسٹس نے پولیس کی سخت سرزنش کرتے ہوئے قراردیا کہ رینجرز بھی بدامنی میں برابر کی ذمہ دار ہے. عدالت کے طلب کرنے پر ڈی جی رینجرز سندھ پیش ہوگئے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی اور دیگر افسران کو شرم ہوتی تو عہدے سے ہٹ جاتے. آئی جی سندھ سرفراز شاہ کیس،دہری شہریت کیس میں غلط حقائق پیش کرچکے ہیں،،غلط حقائق پیش کرنے کے باوجود وہ عہدے پر موجود ہیں. انہوں نے مزید کہا کہ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا صوبائی حکومت میں اتنا دم نہیں کہ آئی جی سندھ کوفارغ کرے، پہلے ہی کہہ چکےہیں کہ حکومت سندھ فیل ہوچکی ہے. سماعت کے دوران ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے کہا کہ ہم نے دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں کیں، مجھ پر خودکش حملہ ہوا. ہمارے نام دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں،،اس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں سب کے نام ہٹ لسٹ پر ہیں، لسٹیں نہ بتائیں. آپ اتنے قابل افسر ہیں توآپ کو وانا بھیج دیتے آپ بکتر بند گاڑی کے بغیر چل نہیں سکتے، لوگوں کو کیا خاک تحفظ دینگے، سپریم کورٹ نےایس ایس پی راؤ انور کی فوری معطلی کے احکامات جاری کردیے۔ اس موقع پرانور منصور نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں وزیراعلیٰ سندھ سے بات کرکے جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن وہ بچارے کچھ جانتے ہی نہیں. وزیر اعلیٰ کو احساس ہوتا تو کارروائی کرتےاور آئی جی کو ہٹادیتے،،،لگتا ہے آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کیخلاف کیس کرانا پڑے گا. انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں، روز دس سے پندرہ لاشیں گرتی ہیں. عدالت اکتوبرکے فیصلے میں حکومت تحلیل کردیتی تو سب ٹھیک ہوجاتا ہم نےفیصلہ دیاکہ آپ خودعمل کریں لیکن آپ نےایسا نہیں کیا،،سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ فسادات کرانے کے لیے شیعہ سنی دونوں کو مارا گیا. سارے واقعات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مت ڈالا کریں.