سپریم کورٹ رجسٹری میں سانحہ عباس ٹاؤن ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی،محکمہ داخلہ سندھ نے بتایا کہ آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی ایسٹ کی خدمات وفاق کو واپس کردی گئی ہیں، جس پرعدالت نے آئی جی، ایڈیشنل آئی جی غلام شبیر اورڈی آئی جی ایسٹ کے متعلق تفصیلی رپورٹ آٹھ مارچ کو طلب کرلی سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری کوعباس ٹاؤن کے ایس ایچ اوسے سپرنٹنڈنٹ تک تمام افسروں کی معطلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرنے کا حکم دیا، دوران سماعت عدالت نے ایس ایس پی ملیر راؤ انور کی معطلی کے احکامات جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ بکتر بند گاڑی میں گھومنے والے عوام کو کیا تحفظ دیں گے،عدالت نے کراچی کوسیل کرکے اسلحہ سے پاک کرنے اور سانحہ عباس ٹاؤن کے متاثرین کی فوری امداد کابھی حکم دیا،سپریم کورٹ نے قراردیا کہ گیارہ ہزار نفری کے باوجود بظاہر رینجرز امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہے، ڈی جی رینجرزنےتسلیم کیاکہ عباس ٹاؤن سےمتعلق انکےپاس عمومی معلومات تھیں، تاہم لوگوں میں اشتعال کی وجہ سے رینجرز موقع پر نہ پہنچی، عدالت کا کہنا ہے کہ کراچی بد امنی فیصلے کے باوجود صورتحال بد سے بدترہوتی جارہی ہے،ان حالات کا صوبائی حکومت کے علاوہ کوئی ذمےدار نہیں،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکومتی وکیل انورمنصور کو کہا کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں، روز دس سے پندرہ لاشیں گرتی ہیں،عدالت اکتوبرکے فیصلے میں حکومت تحلیل کردیتی تو سب ٹھیک ہوجاتا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نےفیصلہ دیاکہ آپ خودعمل کریں لیکن آپ نےایسا نہیں کیا، آئی جی سندھ کے حوالے سےچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان میں شرم ہوتی توسانحہ کے بعد عہدے سے ہٹ جاتے،اتنا بڑا سانحہ ہوگیا مگرصوبائی حکومت میں اتنا دم نہیں کہ آئی جی سندھ کوفارغ کرے،حکومت کی مجرمانہ غفلت واضح ہے، بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آٹھ مارچ تک ملتوی کردی۔