میری نسل اور میرے عہد کے جو لوگ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے۔ اگر ہم نے تحریک پاکستان کے دور کے جدبوں، ولولوں اور توانائیوں کو دیکھنا ہو تو ہمیں ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان میں منعقد ہونے والی نظریہ پاکستان کانفرنسوں میں ایک بار شرکت ضرور کرنی چاہئے۔ یہاں آپ کی ملاقات ان مبارک ہستیوں سے ہو گی جن کو یہ لازوال فخر حاصل ہے کہ وہ قائداعظم کی قیادت میں قیامِ پاکستان کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ نظریہ پاکستان کانفرنسوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نئی نسل میں قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس کے حوالے سے گہرا شعور پیدا کیا جائے تاکہ وہ ان گمراہ عناصر کا محاسبہ کر سکیں جو پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے بجائے پاکستان کا مفہوم کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس دور میں وہی کردار ادا کر رہا جو تحریک پاکستان کے زمانے میں سرسید احمد خاں کی قائم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی نے کیا تھا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم پر ہر سال نہ صرف پاکستان بھر سے بلکہ بیرون ملک سے بھی محب وطن پاکستانیوں کے نمائندے جمع ہو کر تجدید عہد کرتے ہیں کہ جس طرح قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کا معجزہ رونما ہوا تھا اسی طرح ہم ایک دن پاکستان کو قائداعظم کے تصورات کے مطابق جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا مشن بھی مکمل کریں گے۔ قافلہ نظریہ پاکستان کے سالار جناب مجید نظامی نے اس مرتبہ بھی نظریہ پاکستان کانفرنس کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارت کے پنجہ استبداد سے آزاد نہیں کروا لیتے اس وقت تک قائداعظم کا پاکستان مکمل نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ایک آدمی اپنی شہ رگ کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا جس طرح پاکستان کی حفاظت کے لئے ہمارے وطن کی ایک مثالی فوج ہے اسی طرح کشمیر کی آزادی کے لئے ایک الگ فوجی ادارہ قائم کرنا چاہئے جس کا مشن ہی آزادی کشمیر کے لئے جہاد کرنا ہو۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان فرمایا تھا۔ ہم اس مقصد کو ضرور حاصل کرکے رہیں گے۔ اگر ہم عوام کے لئے پاکستان کو ایک مثالی فلاحی ریاست بنانے میں کوتاہی کریں گے تو یہ قائداعظم کی تعلیمات سے بے وفائی ہو گی۔ نظریہ پاکستان کانفرنس کی ایک نشست سے خطاب جنرل (ر) حمید گل نے کہا کہ قیام پاکستان کا مقصد پوری دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کا ایک ایسا ماڈل پیش کرنا تھا جس کے ثمرات دیکھ کر دوسرے ممالک بھی پاکستان کی تقلید کرتے اور ہم امریکہ کی مسلط کی ہوئی غلامانہ پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام شودروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ قیام پاکستان کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا۔ اگر ہم ملک میں قرآن و سنت کا نظام نافذ کر دیں تو ملک سے معاشی اور معاشرتی ناانصافی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ نظریہ پاکستان کانفرنس میں وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے ڈاکٹر مجید نظامی کو آفتاب صحافت کہہ کر پکارا اور یقین دلایا کہ ہم نے اس آفتاب سے جو نظرئیے اور فکر کی روشنی حاصل کی ہے یہ امانت ہم پوری دیانتداری سے نئی نسل کو منتقل کریں گے۔ ہم نظریہ پاکستان کے چراغ کی لَو کبھی مدھم نہیں ہونے دیں گے پاکستان میں باصلاحیت اور دیانتدار افراد کی کمی نہیں لیکن دوسروں سے ایمانداری کی امید رکھنے سے پہلے ہمیں خود ایمانداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔
مدینہ منورہ میں نظریہ پاکستان فورم کے صدر ڈاکٹر خالد عباس نے قیام پاکستان کو گنبدِ خضریٰ سے سبز ہلالی پرچم تک کا سفر قرار دیا جو ہم نے چودہ سو سالوں میں طے کیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مدینہ پاک کی اسلامی ریاست کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی ریاست ہے جو اسلامی نظرئیے کی اساس پر معرض وجود میں آئی۔
ایک مقامی سکول کے بچوں نے جناب اثر چوہان کا پرتاثیر ترانہ نظریہ پاکستان میوزک کے ساتھ اپنی خوبصورت آوازوں کو ہم آہنگ کرکے پیش کیا تو سامعین پر وجد طاری ہو گیا۔ کلام کی خوبصورتی اور نظریہ پاکستان کے پیغام کی جاذبیت نے وہ رنگ جمایا کہ یہ ترانہ نظریہ پاکستان کانفرنس کی شناخت بن گیا۔ اس ترانے کی تخلیق پر بجا طور پر ڈاکٹر مجید نظامی نے اثر چوہان کو شاعر نظریہ پاکستان کے خطاب سے نوازا۔ میراث نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے والوں ایسی ہی قدر و منزلت اور احترام سے نوازا جانا چاہئے۔
کالم کے آخر میں مجھے جناح اقبال میموریل کمیٹی سیالکوٹ کا یہ اعلان تحریر کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اس کمیٹی نے ڈاکٹر مجید نظامی کے نظریہ پاکستان سے محبت کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے حوالے سے لکھی گئی مستند کتابوں کا ایک ایک مکمل سیٹ پاکستان بھر میں یونیورسٹیوں، کالجز اور سکولوں کی لائبریریوں کو مفت فراہم کیا جائے گا۔ جناح اقبال کمیٹی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ادارے یا پرائیویٹ اداروں اور اشخاص کی جانب سے قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابیں خرید کر لائبریریوں میں مفت تقسیم کر دیتے ہیں۔ جناح اور اقبال کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ہم اپنے ملک میں جمہوریت، انصاف اور مساوات پر یعنی ایک مثال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔