اسلام آباد (خبر نگار خصو صی) قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سر کاری اداروںکے افسران اپنے ساتھ ملازمین کی فوج ظفر موج نہ لایا کریں۔ اس سے ملک اور قوم کا نقصان ہو رہا ہے، ایک ایک افسر اپنا بیگ اٹھانے کیلئے دو، دو ملازم ساتھ لاتے ہیں، یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں پی اے سی کے چیئرمین خورشید شاہ کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری محکموں کے اعلی افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا کمیٹی کو آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ 2009-10ء میں وزارت پانی و بجلی مختلف منصوبوں کیلئے مختص 22 ارب 40 کروڑ کی رقم استعمال کرنے میں ناکام رہی، یہ رقم پڑی پڑی زائد المیعاد ہو گئی جس پر ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ یہ 22 ارب کا نقصان ہوا ہے جبکہ 7 ارب 50 کروڑ کی رقم تو کبھی جاری ہی نہیں ہوئی وزارت کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ 22 ارب 40 کروڑ کی رقم نئے دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی کیلئے اور متبادل توانائی کے منصوبوں کیلئے استعمال ہونا تھی، اس پر کمیٹی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ یہ تو بہت اہم منصوبہ ہے پھر رقم خرچ کیوں نہیں کی گئی۔ کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ اس دور میں کمیٹی پانی و بجلی کے وزیر نوید قمر تھے۔ نوید قمر نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری اس وقت متبادل توانائی بورڈ کے سربراہ تھے، وہی اس کا جواب دیں گے۔ پی اے سی نے کسی کارروائی کے بغیر یہ آڈٹ اعتراض نمٹا دیا۔ نیسپاک کے معاملات کاجائزہ لیتے ہوئے پی اے سی نے اسکی آمدنی میں اضافے کے باوجود منافع میں کمی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبہ پر کام ایک ماہ میں شروع ہوجائیگا۔ 27 کنسٹرکشن کمپنیوں نے درخواست دی ہے۔ ایم ڈی نیسپاک نے بتایا کہ پیپرا رولز میں ترمیم کر دی گئی ہے، نئے قانون کے مطابق میگا منصوبے کسی ٹینڈر کے بغیر سرکاری کمپنیوں کو دیئے جا سکتے ہیں۔ سرکاری کارپوریشن کی جانب سے بنکوں میں رکھی جانے والی رقوم کے حوالے سے ایک آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی نے ہدایت کی کہ سرکاری کارپوریشن اپنا پیسہ اچھی شہرت کے حامل اور منافع میں جانے والے ٹرپل اے (AAA) بنکوں میں رکھیں۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ نیسپاک نے 2008ء میں فوٹو کاپیوں پر ایک کروڑ روپے خرچ کئے۔ ایم ڈی نیسپاک نے بتایا کہ نیسپاک کا زلزلہ سے متعلق نیا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا، جس میں دن رات کام ہوتا تھا، اس معاملے میں ایرا ہمارا کلائنٹ تھا اور اس نے ہمیں یہ رقم ادا کر دی تھی۔