محدث دوراں مولانا عبدالمجید لدھیانوی ؒ

Mar 06, 2015

مولانا محمد امجد خان                         
  حضور اکرمؐ نے قرب قیا مت کی ایک نشانی یہ بھی بیان فرمائی کہ علم اٹھ جائے گا۔(اللہ تعالیٰ اٹھالیں گے) صحابہ کرام ؓ نے بطور تعجب  سوال کیا کہ یا رسول اللہ ؐ  علم کس طرح   اٹھایا جائے گا تو حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اہل علم کو اٹھاتے جا ئیں گے اسی لئے ایک عالم با عمل کی موت کو پورے عالم (جہاں) کی موت سے تشبیہ دی گئی ہے یاد گار اسلاف ،عالم با عمل، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی  اہل علم کے قافلے کا ایک  درنا یا ب فرد  تھے  جن کی تمام زندگی دین اسلام  ترویج، قرآن مجید  اور   حضورؐ کی حدیث پڑھاتے ہوئے گذری اور انہوں نے امت کی کثیر تعداد کو حضورؐ کے ارشادات عالیہ سے روشناس کروایا اور حدیث شریف کی خدمت کا جو حق تھا وہ ادا کیا ۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ طالب علمی میں جب بخاری شریف کا ختم ہوا تو میں ایک پرانی مسجد میں جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب رویا اور دعا مانگی یا اللہ ! اب ساری زندگی حدیث ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ بس کوئی قبولیت کی گھڑی تھی اللہ تعالیٰ نے دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور نصف صدی تک دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی خدا کی شان دنیا سے جب رخصت ہوئے تو دین کی خدمت میں ہی مصروف تھے۔وفاق المدارس کے اجلاس کی صدارت فرمارہے تھے اور ان اداروں میںقرآن و حدیث کی تعلیم  کی اہمیت پر بیان فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ ملک پاکستان میں اگر آج اسلامی نظام نافذ کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دے گا یہی وہ الفاظ تھے جو انہوں زمانہ طالب علمی میں اپنے ہر دلعزیز استاد مفکر اسلام  حضرت مولانا مفتی محمود ؒ سے سن اور سیکھ رکھے تھے اور پھر انہیںآخری سانس تک اسی سبق کو اپنے سینے سے لگائے رکھا حتی کہ جب زندگی کا آخری خطاب فرمایا تواس وقت بھی اسلامی نظام کے نفاذ ہی کی بات فرمائی۔حضرت شاہ ولی اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں جولوگ حضورؐ کی احادیث پڑھتے یا پڑھاتے ہیں ان کو ہر وقت حضور ؐ کی فیوض و برکات پہنچتی رہتی ہیں۔ حضرت شیخ الحدث  کی ساری زندگی اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں گزری۔
حضرت شیخ الحدیث کا سب سے بڑا وصف درس حد یث کے ساتھ اپنے محبوب حضرت محمدؐ کے ارشادات  کی پیروی  تھا۔ آپ صرف ایک عالم دین نہیں بلکہ ایک عالم با عمل تھے ۔آپ کی زندگی مکمل طور پر سنت پیغمبرؐ سے عبارت تھی۔ آپ کا قال قال مصطفیؐاور حال حال مصطفیؐ سے لبریز تھا آجکل کے دور میں اخلاق کا فقدان ہوتا چلا جارہا ہے۔لیکن حضرت شیخ الحدیث کی زندگی کا ایک ایک لمحہ حضوررؐ کے اقوال وافعال کے پیرائے میں تھا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت کو لاتعداد او صاف وکمالات کا منبع بنایا تھا۔آپ جب ختم بخاری کی تقریب میں آخری حدیث مبارک پر  بیان فرماتے تو مجمع عش عش کر اٹھتا۔سادہ بیان تھے مگر ساحرالبیان تھے اور قادرا لکلام تھے۔آپؒ کی بات چونکہ دل سے نکلتی تھی چنانچہ سامعین کے دلوں پراثرکرتی تھی۔آپ مشکل سے مشکل علمی بات بھی ایسے عام فہم اورد لنشین انداز میں بیان فرماتے کہ ہر شخص اس کا مطلب ومفہوم باآسانی  سمجھ جاتا۔
آپ کے جمیع بیانات عارف باللہ حضرت شیخ سعدی ؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے علمی ذوق سے متاثر تھے بندہ ناچیز کو متعد دبارحضرت شیخ الحدیث  کی صدارت وسرپرستی میں خطاب کا شرف نصیب ہوا سالانہ دستا ربندی کی پر نور مجالس ہوں یا ختم بخاری کی پر رونق تقاریب ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا پلیٹ فارم ہویا شان صحابہ واہلبیتؓ کی کانفرنسیںبندہ ناچیز کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی اور دعائوں سے نواز تے رہے۔ حضرت شیخ الحدیث  میں دوباتیں ایسی تھیں جوانہیں اپنے اسلاف سے علم کے ساتھ ورثہ میں نصیب ہو ئی تھیں ایک کم گوئی اور دوسراصاف گوئی ،حق گوئی حق بات کہنے میں کبھی  کسی مصلحت یا دباؤ کی  پرواہ نہیں فرمائی جومحسوس کرتے برملااس کا اظہا فرماتے اور بندہ ناچیز کے یہ الفاظ صرف تحریرکی حدتک نہیں بلکہ حقیقت کا مظہر ہیں حضرت اقد س سیدنفیس الحسینی شاہ اور حضرت مولانا محمد اصلح الحسینی سے شرف مجاز بھی پایا لیکن اظہار سے زیادہ اخفاء کے آدمی تھے۔
اُن کی نظر مخلوق پر نہیں بلکہ خالق پر تھی ۔قرآن مجید کی تلاوت، درور شریف کی کثرت آپ کی زندگی کا دائمی معمول تھا ۔حضرت سید نفیس الحسینی کی وفات کے بعد اقراء روضتہ الا طفال کے سرپرست اور حضرت مولانا خواجہ خان محمدکے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتویں امیر مقرر ہوئے اور اپنا فرض نبھایا اور خوب نبھایا ۔جمعیت علماء اسلام اور قائد محترم حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ سے ہمیشہ محبت کا اظہار فرمایااور اپنی دعائوں سے نوازتے رہے
1972؁ ء میں جامعہ اسلامیہ باب العلوم کہروڑ پکا حاجی غلام محمدکے پرزورا صرارپرتشریف لائے اور خمیر وفانے ایسی وفا کہ جنازہ وہیںسے اٹھا اور خمیر بھی وہیں کا تھا توتد فین بھی وہیں ہوئی ۔ قدرت نے آپ کو اولاد کی نعمت سے تونہ نوازا لیکن اللہ تعالیٰ نے روحانی اولاد بڑی تعداد میں نصیب فر مائی جو آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی مقبولیت کی ایک بڑی دلیل آپ کے تلامذہ کی کثیر تعداد آج مسند حدیث پر استاد الحدیث اور شیخ الحدیث بن کر موتی بکھیرنے میںمصروف ہے۔ نماز جنازمیں بے حساب لوگوں کی شرکت بھی عنداللہ مقبولیت کی نشانی ہے ۔
نماز جنازہ کی امامت استاد الا ساتذہ، محدث کبیر  ، یاد گااسلاف بخاری دوراں حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی اور تاریخ نے وہ ایمان افروز منظر دیکھا کہ ایک شیخ الحدیث کے جنازہ کی امامت بھی وقت کے نامور شیخ الحدیث فرما رہے تھے اور جنازہ میں کثیر تعدادان لو گوں کی تھی جو خدمت حدیث سے وابستہ تھے ۔
 قدرت سنت سے محبت کر نے والوں کو ایسی مرتبت بخشا کرتی ہے پیاروں کے جنازوں میںرب اور اس کے محبوب  ؐ کے پیارے ہی آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کا جملہ توزبان زدعام ہے کہ اہل حق کی نشانی ان کے جنازوں سے پہنچانی جا سکتی ہے۔ اسی لئے آپ کا جنازہ بھی دین اسلام کے دین حق ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الحدیث کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے فیض وبرکت سے نوازے آمین ۔

مزیدخبریں