بھارتی اور پاکستانی خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات

بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزازچودھری کی اسلام آباد میں منگل کے روز ملاقات اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ 13 ماہ کے تعطل کے بعد دونوں ملکوں میں خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر رابطہ تو ہوا ہے دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ کی ملاقات 13 ماہ پہلے طے تھی نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر سے کشمیری حریت کانفرنس کے رہنمائوں کی ملاقات پر چڑ کر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ ملاقات یکطرفہ طور پر معطل کر دی تھی۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اس دوران کہا تھا کہ خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات بھارت سرکار نے معطل کی تھی اب اس کی بحالی کا بار بھارت سرکار پر ہے۔ پاکستان نے تو ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی ہے چنانچہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی اور خارجہ سیکرٹریز کی ملاقات بحال کر دی گئی۔ اس بحالی کے نتیجہ میں بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر اسلام آباد آئے اور منگل کے روز پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سے ان کی ملاقات اور مذاکرات ہوئے۔ اس ملاقات یا مذاکرات کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا لیکن بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ معاملات کے حل کرنے اور اس کے طریقہ کار پر بات ہوئی ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کی وزیراعظم پاکستان اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے میڈیا سے یہ بات کہی۔ اتفاق رائے کے نکات تلاش کرنے اور اختلافات کم کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ سرحد پر امن قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے خوش بیانی سے بھی کام لیا کہ ہم نے کھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کے خدشات اور مفادات پر بات کی ہے۔
بھارت کی جانب سے ممبئی حملوں سمیت سرحد پار دہشت گردی کے معاملات پر اس کے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا گیا۔ سیاچن، سر کریک اور دوسرے امور پر بھی بات کرنے پر اتفاق کیا گیا اعزاز چودھری نے کہا کہ بھارتی ہم منصب سے کنٹرول لائن پر کشیدگی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا دو طرفہ مسائل کو حل کرنے کے لئے مزید مذاکرات کی ضرورت ہے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریز کی اس ملاقات کو ہم برف پگھلنے سے تعبیر نہیں کر سکتے لیکن اسے تعطل دور کرنے کے آثار کہہ سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کے بنیادی مسئلہ کے باعث دو جنگیں ہو چکی ہیں۔ کشیدگی کی اس گرم فضا میں دونوں ملکوں کے درمیان وزراء اعظم سے لے کر سیکرٹری خارجہ کی سطح تک تقریباََ 2000 مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں۔ کسی سطح کے مذاکرات میں کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی جا سکی۔ بھارت اس سے ہمیشہ گریز کرتا رہا۔ عالمی شہرت کے سیاستدان جواہر لال نہرو نے بھارت کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے بھارتی پارلیمنٹ میں اور سری نگر کے لال چوک میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ہم سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل درآمد کریں گے خواہ ان کے نتائج سے ہمیں دکھ ہوگا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور بھارت نے کشمیر پر غیر آئینی، غیر اخلاقی اور ہر طرح کے سفارتی آداب کے خلاف قبضہ جما رکھا ہے اس ملاقات کے بعد بھی بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے کشمیر کا ذکر اپنے بیان میں نہیں کیا۔ ہمارے سیکرٹری خارجہ نے اپنے بیان میں کشمیر کا پہلے ذکر کیا ہے یعنی کشمیر کا مسئلہ بھی بھارت کے لئے سب سے بڑا کانٹا ہے۔ اس ابر آلود تاریخی پس منظر کے باوجود ہم مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے پر اچھی توقعات رکھتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...