دردِ زِہ میں مبتلا لیڈر

ہم نیشنل اسمبلی کی لابی میں بیٹھے تھے اور ٹیلی ویژن پر ایک لیڈر کی تقدیر چل رہی تھی، ایک خاتون نے پوچھا یہ تو اس طرح چیخ رہے ہیں جیسے کہ دردِ زِہ میں مبتلا ہوں، تقریباً ہر عورت اس تجربے سے گزرتی ہے اس لئے وہ اس انداز کو پہنچانتی ہے۔ ہم نے کہا آپ ٹھیک کہتی ہیں ایک دردِ زِہ تخلیق کے لئے ہوتی ہے اور دوسری دردِ زِہ تخریب کی نمائندگی کرتی ہے۔ سیاست کی دنیا میں تخلیق اور تخریب ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چلتی ہیں مرد عام طور پر یہ انداز اختیار نہیں کرتے مگر جب ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جائیں تو کوئی بھی انداز اپنا سکتے ہیں۔
بناوٹ بناوٹ ہی رہتی ہے۔
یہ جو مصطفیٰ کمال نے ساری باتیں ظاہر کی ہیں، کیا یہ نئی ہیں، کیا پہلے نہیں کہی گئیں، پہلے نہیں سنی گئیں، کیا ان پر سے کئی بار پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
کیا ان کی باز گشت اور اندازے مختلف طریقوں سے نہیں بتائے گئے۔
تو پھر عالم سیاست میں سناٹا سا کیوں طاری رہا؟
کیا کسی کو اس سے پہلے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ غلاموں اور باندیوں کے انداز میں خواتین و حضرات فرش پر بیٹھے ایک ایسے انسان کو گھنٹوں سن رہے ہیں جس کی گفتگو میں ربط نہیں، ضبط نہیں کوئی قاعدہ نہیں کوئی ارادہ نہیں اور کوئی سمت بھی نہیں… اور اس کی للکار سرحد پار کے لئے اٹھتی ہے… اور وہ دھمکیوں کی آواز میں باتیں کرتا ہے۔ کیوں؟ دھمکیاں اور اس پاکستان کو جس کا دیا کھاتے ہو، جس کے صدقے میں مسند پر براجمان ہو اور جس کی بیخ کنی کے لئے وظائف وصول کرتے ہو۔
کیا مصطفی کمال نے کچھ نئے خدشوں کا اظہار کیا ہے۔
کیا یہ خیالات ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں پہلے سے نہیں تھے۔ کیا کراچی جیسے تابناک شہر کی بربادی کی داستان ان خدشوں میں چھپی ہوئی نہیں تھی، جب کراچی میں کئی نسلیں برباد کی جارہی تھیں تب ایوانوں اور دالانوں میں خاموشی کیوں تھی؟
بارہا کئی سوال اٹھے۔ بار ہا ان کو جواب کی راکھ تلے دبا دیا گیا۔
جو نظر آ رہا تھا وہ زبانوں پر کیوں نہ آ سکا۔
آج پھر ایک مصطفی کمال اٹھا ہے اور اس نے سچ کی صلیب اپنے کندھے پر اٹھالی ہے سچ ایک سولی ہے اور سولی چڑھ جانا ہی سچ کی بہت بڑی گواہی ہے۔
آج کچھ لوگ اس سچ پر مصنوعی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں، کچھ اس بے وقت یا بر وقت اظہار پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں، کچھ اپنا منہ چھپا رہے ہیں۔
لیکن خدا لگتی کہیے … اس کی کڑیاں ملا کر دیکھئے۔ اس کی سٹیج پر جا کر دیکھئے… دل کیا کہتا ہے۔
بہت سے مناظر آنکھوں کے سامنے سے گزرتے چلے جا رہے ہیں کیا یہ مناظر گزشتہ سالوں میں کسی نے نہیں دیکھے، کسی نے نہیں سنے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کیا خوب فرماتے ہیں کہ کوئی بھی فعل اچھا یا برا سات پردوں میں چھپا کر کیا جائے یا تحت الثریٰ میں کیا جائے، ایک دن ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ یہی قدرت کا کرشمہ ہے کہ انسان اپنے اعمال اور افعال کو کسی جادو کی پڑیا میں باندھ کر چھپا نہیں سکتا۔
ڈاکوئوں کے اندر بھی کسی ڈاکو کا ضمیر جاگتا ہے اور وہ ساری آگ اگل دیتا ہے۔
اول تو وہ کوئی سیاسی لیڈر نہیں ہو سکتا جو کسی دوسرے ملک کی سیاسی پناہ میں ہو۔ ایک قوم کا غلام دوسری قوم کا لیڈر نہیں ہو سکتا۔ جس کے کردار کی سلیٹ صاف ہو وہ خلقت کے سامنے نکل کر اپنا آپ پیش کرتا ہے۔
کیا یہ سب کچھ ایک ڈرامہ نہیں لگتا تھا۔
کیا یہ سب کچھ مضحکہ خیز نہیں لگتا تھا۔
کیا ’’را‘‘ کو للکارنا اور پاکستان کو ’’دھمکانا‘‘ محض ایک ادا تھی۔
بخدا ہمیں یوں محسوس ہونے لگا ہے ایک مصطفی کمال کے بعد کئی اور مصطفی کمال اٹھیں گے سچ کا بول بالا کریں گے۔ اب اللہ کو پاکستانیوں پر ترس آ گیا ہے، اب پاکستان کو ہر قسم کے گند اور کوڑا کرکٹ سے صاف کیا جائے گا، اب یہاں قدرت کا احتساب چلے گا۔ جس نے پاکستان کو گالی دی اور پاکستان کا برا چاہا وہ قدرت کے عتاب میں آئے گا۔
’’را‘‘ کے تمام وظیفہ خور ذلیل وخوار ہوں گے۔ وہ جس بھی مسند پر بیٹھے ہوں پہچانے جائیں گے، پکڑے جائیں گے ویسے وہ اپنی گفتگو سے پہچانے تو جاتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ مصلحتیں کسی کے قدم روک لیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ بعض چینلز پر ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو پاکستان کی نفی کرتی ہیں۔ وہ جو علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ جو تحریک پاکستان کو ایک غلطی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ جو قائداعظم کو صرف مسٹر جناح کہہ کے بلاتے ہیں۔ وہ جو دو قومی نظریہ کو لایعنی قرار دیتے ہیں۔ وہ جو نئی نسل کو تاریخ اور جغرافیہ سے بے زار کر رہے ہیں کیا وہ سب ’’را‘‘ کے وظیفہ خوار ہیں۔ ستر سال گزر جانے کے بعد پاکستان کے ایک بڑا ملک بن جانے کے باوجود پاکستان کی مسلسل نفی کر تے رہنا کیا یہ بھی ’’وظیفہ خواری‘‘ ہے۔ اب سوچنا پڑے گا اب دیکھنا پڑے گا اب کانٹے چننے پڑیں گے۔ اب ان حقائق کو بیچ منجدھار چھوڑ کر کشتی خدا کے حوالے نہیں کرنی پڑے گی۔
کس کے اشارے پر پاکستان کے اندر سکولوں اور کالجوں کا نصاب بدلا جا رہا ہے؟ اکابرین کا حساب بدلا جا رہا ہے؟۔
آج انڈیا کے حالات پر غور کریں۔ آج آر ایس ایس نے دو قومی نظریے کا پرچم اٹھا رکھا ہے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوسری قوم مان رہے ہیں ان کو زندہ رہنے کا حق نہیں دینا چاہیے۔ انہیں پاکستان چلے جانے کا طعنہ دیتے ہیں اور تم دو قومی نظریہ کا مذاق اڑا رہے ہو۔
اپنے اقتدار کے لئے کوئی سرحد پار سے مدد مانگے۔ یہ صریحاً پاکستان کی نفی ہے۔ پاکستان کے اندر رہ کر پاکستان کو گالی دینا ایک جرم ہے۔ اس کو جرم ہی مانا جائے۔ آخر مصطفی کمال کی باتوں کو ایک زہریلا سچ کیوں نہ سمجھا جائے۔ اور اس زہر کا تریاق کیوں نہ تلاش کیا جائے۔۔؟
اب اس سے زیادہ سناٹا اے شام غریباں کیا ہوگا
ہم نے اس سے پہلے سینکڑوں بار لکھا ہے اور ہزاروں بار لکھنے کے لیے تیار ہیں کہ جو شخص، ادارہ یا ٹیم پاکستان کے لئے پاک فوج کے لئے ہرزہ سرائی کرے گا اس کی بربادی کا سامان کرے گا یا دشمنوں کا آلہ کار بنے گا وہ انشاء اللہ خود فنا ہو جائے گا۔ نیست و نابود ہو جائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ آخر میں مصطفی کمال کی ایک بات کا جواب دینا ہے کہ اب تو سارا پاکستان اردو بول رہا ہے اب تو سارے پاکستان کی زبان اردو ہے۔ اب تو عدالت نے اردو کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب آپ بھی اردو کی اجارہ داری ختم کریں۔ میرے بھائی اردو صرف آپ کی نہیں پورے پاکستان کی زبان ہے۔

ای پیپر دی نیشن