سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کو دوہری شہرت رکھنے والے 4 نومنتخب سنیٹرز کی کامیابی پر نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیا

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز‘ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کو دوہری شہرت رکھنے والے 4 نومنتخب سنیٹرز کی کامیابی پر نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ ان ارکان میں تحریک انصاف کے چودھری سرور بھی شامل ہیں جبکہ دیگر سنیٹرز میں سعدیہ عباسی ‘ ہارون اختر اور نزہت صادق شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جن لوگوں نے قانون بنانا ہے ان کی دوہری شہریت ہے۔ عدالت نے 43 ڈویژنز اور وزارتوں کے سیکرٹریز کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ جن کا کام ہے انہوں نے نہیں کیا، خدمت کرنے آئے ہیں تو خدمت کریں۔ پیر کوسپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز پر درختوں کی کٹائی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس دوران سروے جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد کب سے بنا ہوا ہے لیکن ڈرافٹ رولز نہیں بنے، صدیاں گزر گئی ہیں اسلام آباد میں رولز کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ہم بولتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے کام میں مداخلت ہورہی ہے، کہتے ہیں کہ عدلیہ ایگزیکٹو اتھارٹی کے کام میں مداخلت کررہی ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ جن کا کام ہے انہوں نے کیا نہیں، خدمت کرنے آئے ہیں تو خدمت کریں، ہم ہدایات بھی نہ دیں تو کیا دے کرجائیں گے اپنے بچوں کو۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیرکیڈ طارق فضل چوہدری کو بھی طلب کرلیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں ماورائے عدالت ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کیس میں مفرور ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ملیر راو¿ انوار کو تلاش کرنے سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیاہے ۔پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل سندھ پولیس، جوائنٹ سیکریٹری وزارت دفاع، نقیب اللہ محسود کے وکیل اور دیگر حکام پیش ہوئے۔سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیور (آئی بی)کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی، تاہم انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی جانب سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ راو¿ انوار کی گرفتاری میں کوئی پیش رفت یا کامیابی ہوئی یا نہیں؟ جس پر اے ڈی خواجہ نے جواب دیا کہ نقیب اللہ قتل میں ملوث ڈی ایس پی گرفتار ہوگیا ہے لیکن راو¿ انوار تاحال مفرور ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو تمام سیکیورٹی اداروں کی مدد فراہم کی تھی، اس کے باوجود ملزم کیوں گرفتار نہیں ہوا؟ آپ نے تمام سیکیورٹی اداروں سے کیا معاونت لی؟ جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تمام اداروں سے راو¿ انوار کی تلاش کےلئے مدد مانگی تھی، ساتھ ہی راو¿ انوار کی لوکیشن، واٹس ایپ کال اور میسیجز کے حوالے سے بھی معلومات مانگی تھی لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ راو¿ انوار سے متعلق انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ عدالت میں جمع ہوچکی ہے جس کے مطابق آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم سے رابطے میں ہیں اور آئی بی نے مفرور ملزم کی فون کالز کا تکنیکی جائزہ لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ میں تو کچھ بھی اس کا ذکر نہیں اور آئی ایس آئی کی رپورٹ کہاں ہے؟نجی ٹی وی کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ اب تک نہیں آئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ کیوں نہیں آئی؟ وضاحت کریں۔اس دوران عدالت میں کچھ دیر کا وقفہ ہوا، بعد ازاں مختصر وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے سندھ پولیس سے تعاون کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالتی حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی؟اس موقع پر عدالت میں موجود جوائنٹ سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے رپورٹ کے لیے وقت مانگا ہے، اگر ایک ہفتہ مل جائے تو ان اداروں کی رپورٹ آجائے گی جس پر عدالت نے دونوں اداروں کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔سماعت کے دوران عدالت نے ایف سی سے بھی راو¿ انوار کی تلاشی سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی کی رپورٹ نہ آئی تو ذمہ دار ادارے کا متعلقہ افسر ہوگا ¾ ہمیں بھی نقیب اللہ محسود کے قتل کا دکھ اور تکلیف ہے، اس معاملے پر سیاست نہیں ہوگی۔ بعدازاںعدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن