جہنم بنا مشرق وسطیٰ اور ترک و کرد مسئلہ

پوری دنیا شامی ’’ مشرقی غوطہ‘‘ پر روسی و ایرانی مدد سے فاتح بنے ہوئے اپنے والد حافظ الاسد کی طرح ہی ’’ قاتل معصوم مسلمانان شامیان‘‘ بشار الاسد کو تنبیہ پھر ملامت اور بے گناہ گار ٹھہرا چکی ہے۔ مگر اسی قاتل ظالم اور بے رحم علوی بشار الاسد کو تو ایرانی رہبر اعلیٰ جناب علی خامنائی نے 2فروری کو’’ ایک بڑا مزاحمت کار‘‘ کا نام دیا جب ان سے تہران میں شامی بشاری حکومت کے وزیر اوقاف محمد عبدالستار السید نے ملاقات کی تھی روحانی ایرانی مرشد اعلیٰ کے نزدیک بشار مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ شام اس وقت مزاحمت کی اولین صف ہے اور ہمیں اسکی ثابت قدمی کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ ایرانی رہبر اعلیٰ کے ’’ انسانیت‘‘ کیلئے ایسے منفی خیالات سے مشرق وسطیٰ میں جاری ایرانی و سعودی و اماراتی و مصری و بحرینی شدید کشمکش کا مکمل فہم عطاء ہوتا ہے۔ یاد رہے ’’ علوی‘‘ فرقہ کو قدیم ترین شیعہ اثنا عشری سرے سے شیعہ ہی تسلیم نہیں کرتے تھے مگر ہم تو قابل احترام عہد قدیم کے ثقہ ترین اثنا عشری مجتہدین کی بات کر رہے ہیں جبکہ جناب علی خامنائی تو عہد جدید کے وہ اثنا عشری مجتہد امام اور ولایت فقیہ شہنشاہ ہیں جنہوں نے ایران کو ملکی اور قوم پرستی کے ملاپ سے ’’ عظیم تر ملک‘‘ بنانے کیلئے ارد گرد کے اکثر مسلمان معاشروں اور ممالک کو جنگی برآمد گی انقلاب کے مسلسل عمل سیاست سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ جبکہ ان کے علاقائی جارحانہ عزائم اور افعال و اعمال سے خلیجی عرب فیصلہ سازوں کا ایران مخالف رویہ جائز اور درست دفاعی مقدمہ بن جاتا ہے جس بشار الاسد کی حمایت میں ایرانی رہبر اعلیٰ نے مذکورہ بالا ارشاد کیا اسی کو اقوام متحدہ نے غوطہ میں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا ہے جس کا اعلان 3فروری کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زین العابدین الحسین نے جنیوا میں کیا ہے۔ ہمیں ترک صدر طیب اردگان کا بہت احترام ہے مسلسل وہ ’’ عفرین‘‘ پر حملے کر رہے ہیں جو کہ شامی علاقہ ہے۔ اتوار کو یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے اور ’’عفرین‘‘ ترک حملے کی خبریں شائع ہوئی ہیں جس طرح آج ایران عہد قدیم کی عظیم ترین ایمپائر بننے کے راستے پر گامزن ہے اسی طرح ترکی کو صدر اردگان خلافت عثمانیہ کے عظیم ترین ترک روپ میں سامنے لاتے رہتے ہیں آج کا ایران جتنا غلط ہے اتنا ہی ترک اس اعتبار سے غلط ہے کہ کردوں کو جو مطلوب مقام و عزت و احترام و سیاسی و ثقافتی حقوق اپنے اقتدار کے آغاز میں خود طیب اردگان نے بطور وزیر اعظم دیئے تھے اور بالکل درست طور پر دیئے تھے آج بطور صدر اردگان انہی دیئے ہوئے حقوق کا خاتمہ کر کے کردوں پر مسلسل ظلم کر رہے ہیں۔ ہم ترکی ایران، عراق کے موقف سے متفق ہیں کہ کردوں کو آزاد اور علیحدہ ریاست نہیں ملنے چاہئے مگر حضور کردوں کو ریاست ہرگز نہ دیں مگر ترکی، ایران، عراق، شام ان بہت اچھے سنی مسلمان کردوں کو اپنی سیاست و اقتدار میں جائز حصہ تو دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کردوں کو ترکی۔ ایران، عراق جائز سیاسی و ثقافتی حق دیں نہ ہی معاشی و حکومتی فوائد کے حصول کا راستہ دیں۔
اگر ایران یمن میں حوثیوں کو اسلحہ و مالی مدد نہ دیتا، عراق کو جزوی سنی اقتدار کیلئے ممنوع قرار نہ دیتا، شام میں ظالم بشار کی حمایت کی بجائے مظلوم شامیوں کا حامی بنتا تو امارات و سعودیہ ، مصر و بحرین ہرگزیوں ایران مخالف نہ ہوتے جیسے آجکل ہیں اور ان کا موجودہ موقف ، رویہ اور عملی فطری اور جائز ہے جبکہ ’’ مسلمان اختلاف‘‘ کا فائدہ اسرائیل مکمل طور پر اٹھار رہا ہے۔ گریٹر اسرائیل کیلئے جو راستے ’’ صاف‘‘ ہو رہا ہے اسکا اصل سبب ایران و حزب اللہ کا سنی عرب دشمن رویہ، عملی اور فعل مسلسل ہے۔ اب کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے حوالے سے کچھ مطالعہ و تجزیہ شہزادہ محمد بن سلمان نے چند دن پہلے کھل کر کہا کہ کرپشن کا کینسر سعودی جسم میں مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔ اگر کرپشن کینسر کا علاج نہ کیا گیا اور اس کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ کینسر سعودی معاشرے اور ریاست کو ختم کر دیگا۔ عموماً کہا جاتا رہا ہے کہ شہزادوں وزراء اور کچھ مالدار تاجروں کو جب ریاض کے ہوٹل میں محبوس کیا گیا تو عملاً شہزادہ محمد اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہا تھا کہ یہ عناصر جن کو محبوس اور معتوب کیا گیا عملاً شہزادہ محمد سے الگ سوچ کے حامل تھے۔ ممکن ہے کہ یہ بات بھی ہو مگر اصلاً شہزادہ محمد کا موقف یہ ہے کہ آل سعود کے شہزادے ، وزرائ، عمال حکومت ، ہر بڑے معاہدے ، سودے لین دین میں کمشن لیتے رہے ہیں اور مستقل نا جائز آمدن اور دولت انکی ریت ، رویت اور عادت بن گئی جبکہ سعودیہ اتنا بے بس ہے کہ اپنا بجٹ تک بنانے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں شہزادہ محمد بن سلمان کا رویہ فطری، جائز اور درست ہے۔ مگر شہزادے کا ریاست پر بوجھ بنے ہوئے طفیل شاہی خاندان کی لوٹ مار کا جہاں راستہ بند کرنا مشکل کام ہے وہاں ریاست پر آل سعود سے باہر شاہ عبدالعزیز کی فیاضانہ سخاوت کے سبب خاندانوں کا ریاست پر مالی بوجھ اٹھانے سے اب انکار کرنا ضروری ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے شدت پسند سعودی علماء جن سے شاہ عبداللہ اپنے آخری عہد میں بہت زیادہ ناراض تھے جہاں حکومتی رعب و دبدبہ اور اثر ختم کیا ہے وہاں روایتی قبائلی ضد و ہٹ دھرمی پر مبنی رویوں کو بھی ’’نکیل‘‘ ڈالی ہے۔ خواتین کو کاروباری ، حکومتی، معاشرتی، ثقافتی آزادی وہ مطلوب کام ہیں جن کو شاہ فیصل عہد ہی میں ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر جو کام شاہ فیصل عہد نہ کر سکا اور جس کام کی تکمیل شاہ عبداللہ عہد نہ کر سکا انکی تکمیل اب شہزادہ محمد اگر کر رہا ہے تو اس عمل کو قبول کیا جانا چاہئے ، سعودیہ کے اندر بنیادی اصلاحات کا نفاذ درست اور مطلوب عمل ہے۔ ایران اور سعودیہ کا تقابلی مطالعہ اگر کیا جائے تو شاہ سلمان عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ذریعے تنگ نظری شدت پسندی و رجعت پسندی سے کافی نجات پار رہا ہے تو انسانی و سیاسی حقوق میں خواتین ، نوجوانوں کو وافر حصہ مل رہا ہے، معاشرتی روحانی و دینی ماحول کو عمل ’’ تکفیر‘‘ سے علیحدہ کیا جا چکا ہے۔ عملاً آج کا سعودی عرب روایت و قدامت پسندی اور بے لچک و تنگ نظر علماء کا سعودیہ نہیں بلکہ آل سعود کے عہد حاضر کا جدیدیت لئے ہوئے سعودیہ ہے جبکہ ایران کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جمہوری صدر و پارلیمنٹ کے باوجود حکومت ایران جدیدیت سے محروم ہے۔ شیعہ اثناء عشری عوام کے سیاسی و معاشی حقوق غصب ہو چکے ہیں اور اصلاح پسند صدر کو بھی شدت پسند طبقہ علماء و فیصلہ ساز عدلیہ اور ولایت فقیہہ سے وابستہ جملہ مذہبی ادارے، پاسداران انقلاب ناکام بنا چکے ہیں، گویا ایران کے اندر اثنا عشری عوام خود اپنے ہی اثنا عشری روحانی رہبر اعلیٰ ، انکے خاندان انکے ساتھ وابستہ مذہبی طبقہ و علماء کے ظلم و جبر اور لوٹ کھسوٹ سے مزین اور دو چار ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ سوموار کو آرمی اور ایئر فورس کی ہائی کمان میں تبدیلیاں کی ہیں جبکہ وزراء میں پہلے ہی کئی بار تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں، جبکہ شہزادہ محمد ’’ جدیدیت‘‘ کے نفاذ اور کامیابی کیلئے ’’با صلاحیت‘‘ اذہان اور کرداروں کیلئے پرانی سوچ کے معمر افراد کو منظر سے ہٹا رہے ہیں۔ یقیناً بیورو کریسی میں بھی بنیادی تبدیلیاں مستقبل میں ممکن ہیں، شہزادہ محمد آج اتوار کو 2دن کے لئے مصر میں ہونگے۔ ایران مخالف مصری صدر جنرل السیسی جن کا صدارتی انتخاب آواخر مارچ میں متوقع ہے شہزادے کے دورے سے سیاسی طور پر مستحکم ہونگے۔ منگل کو شہزادہ برطانیہ جائیں گے اور9فروری کو 22فروری تک وہ صدر ٹرمپ کے مہمان اور بعد ازاں فرانس کا دورہ کریں گے۔ پاکستان کا امارات و سعودیہ و بحرین و کویت ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنا بھی بطور پڑوسی مطلوب کام ہے ہم ایران و سعودیہ و امارات میں مفاہمت اور دوستی کے شدید متمنی ہیں مگر ایران میں جب تک بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہو جاتیں تب تک مفاہمت و دوستی نا ممکن رہے گی۔

ای پیپر دی نیشن