پچھلے دنوں حقوق نسواں کے حوالے سے خواتین کے مجمعوں میں کئی روز تک ایک دلچسپ مگر اہم بحث چھڑی رہی۔ موضوع سخن تھا خاتون خانہ کو اس کے تمام دن کی محنت کا حق یعنی معاوضہ دیا جائے یا کم از کم اس کی اس بلامعاوضہ شبانہ روز محنت کا اعتراف ہی کر لیا جائے جسے وہ اپنا صلہ تسلیم کر لے گی۔ اس سلسلے میں میری طرف سے ایک ہی جواب تھا کہ جب عورت کو بنیادی طور پر دل و دماغ اور احساسات رکھنے والی مخلوق ہی نہیں سمجھا جاتا تو پھر معاشرے میں اس کے حقوق کی بحث بجائے خود لاحاصل اور بے معنی ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں وہ معمولی مزدور شخص ایک عورت کی نسبت بدرجہا بہتر ہے جو کسی مالک مکان سے مزدوری کے لئے چند گھنٹوں کا معاہدہ کرتا ہے، اینٹوں ، پتھروں سے گھر بناتا ہے اور شام کو معاوضہ لے کر اپنا حق وصول کرکے گھر چلا جاتا ہے اس کے برعکس عورت ، جو ایک شخص کے ساتھ عمر بھر کے شرعی معاہدے میں ، حقوق کی ادائیگی کے لئے بندھی ہوتی ہے، اینٹوں، روڑوں کے بجائے اپنے خون پسینے سے گھر بناتی ہے، اس کے اندر رہ کر اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے محنت مزدوری کرتی ہے، بچوں کی پیدائش و پرورش اور تعلیم و تربیت کے اہم ترین مراحل سے گزرتی ہے، اس کی ان تمام اندھی قربانیوں کو نظر انداز کرکے اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ کسی بھی سطح پر اس کے حقوق پورے نہیں کئے جاتے وہی عورت اگر ساتھ کے گھر میںجا کر برتن مانجھے، مزدوری کرے تو اسے اس کی مزدوری مل جائے اور اگر وہ یہ کام خود اپنے گھر میں کرے تو اسے نہ صرف یہ کہ معاوضہ یا انعام نہ ملے۔ بلکہ شوہر سے دشنام وصول ہو جبکہ اسی فیصد حالات میں وہ اپنے خون پسینے کی کمائی خوراک کی صورت میں بچوں اور شوہر کو ہضم کرا دے۔ بظاہر یہ بات مزدور طبقے کی عورت کی ہے۔ لیکن دراصل اس حد بندی میں بہت سی تعلیم یافتہ ملازم خواتین بھی آ جاتی ہیں۔ جو دفتر اور گھر کی دوہری مزدوری کے دوہرے جبر تلے زندگی گزار رہی ہیں۔ اور انہیں اُف تک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ شوہر ان کی عزت و تکریم تک کا حق ادا نہیں کرتا بلکہ اس کے گھر آنے پر روتی آنکھوں کے ساتھ بیوی کو مسکرانے کا حکم بھی ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ فی الواقعہ عورت اور انسان دو الگ الگ الفاظ ہیں اور دونوں کے ترجمے الگ الگ ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے چونکہ مالک اور مزدور کا معاہدہ دو برابر کے مضبوط مردوں کے چار مضبوط بازوئوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لئے پرامن فضا میں تکمیل پذیر ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا معاہدہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتا ہے۔ جس میں ایک فریق جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے اس معاہدے کی کوئی دقعت نہیں ہوتی۔ ذاتی طور پر میں سمجھتی ہوں عورت کسی بھی قسم کے معاوضے ، صلے یا اُجرت کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن اسے اگر معاوضہ نہ دیا جائے، تسلیم بھی نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اس کی محنت کا اعتراف بھی نہ کیا جائے مگر اسے بحیثیت انسان کے وہ تکریم ، حقوق اور عزت نفس تو ملنی چاہئے جو اس کا حق بنتی ہے جبکہ شوہر اس سلسلے میں اپنا یہ حق سمجھتا ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ دُشنام سے بھی کمتر لہجے میں بات کرے، صبح سے شام تک اس کے کام اور شخصیت کو رد کرے، اس کی انا کو کچلے اور پھر کچلی ہوئی عورت پر حکومت کرے جس کا سواد ہی کچھ اور ہے۔ وجہ وہی ایک ہے ’’مامتا کا استحصال‘‘ بیوی سر سے پائوں تک گھر میں گڑی ہوتی ہے اپنے گھر سے اپنا سب کچھ لا کر شوہر کی نسل کو آگے بڑھانے اور اس کا گھر سنوارنے کے لئے اپنی تمام تر کشتیاں جلا کر اس کے گھر کی دہلیز پر آ بیٹھتی ہے ایسی نہتی عورت سے جو بھی سلوک کیا جائے روا ہے حالانکہ قرآن حکیم مرد اور عورت دونوں کو متقی اور پرہیز گار ہونے کے حوالے سے برابری کی سطح پر مخاطب کرتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ مرد اپنی تمام تر بہادری اور مختار کُل ہونے کے باوجود بھی گھر جوائی بننے کا تصور نہیں کر سکتا جبکہ نرم و نازک احساسات کی مالک لڑکی والدین اور تمام عزیزوں ، پیاروں کو چھوڑ کر اس کا گھر بسانے چلی آتی ہے بجائے اس کے کہ اسے تکریم اور مکمل تحفظ دیا جائے اس کے آتے ہی شوہر اپنی نام نہاد اخلاقیات اور انسانیت کے تمام تر اصولوں کو پس پشت ڈال کر حاکم کُل بن جاتا ہے ہمارے نزدیک اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ مرد اچھی طرح جانتا ہے۔ بیوی کا دل و دماغ کچل دینے پر تعزیرات کی کوئی دفعہ نہیں لگ سکتی، اس کی انا کو روندنے کو کسی قانون کی زبان میں جُرم نہیں سمجھا جاتا اور دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسی عدالت موجود نہیں ہے جہاں مرد کی فرعونیت کو پھانسی لگ سکے اس لئے وہ بلا تامل وار کرنا جاری رکھتا ہے دوسرے اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ قانون اس کا ہے، عدالتیں اُس کی ہیں، انصاف اُس کا ہے، اولاد اُس کی، جائیداد اُس کی، نام اُس کا، سارا کام اُس کا بلکہ پورا معاشرہ ہی اُس کا ہے، اسے انسانیت سوز سلوک بند کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور پھر لطف یہ کہ اسے آج تک کبھی سزا نہیں ہوئی آئے روز عورتوں کو جلانا، بے حجاب نچانا، گینگ ریپ اور گھریلو تشدد اس کے لئے معمولی جُرم ہیں۔ ایسے اذیت ناک حالات میں عورت کس کے پاس داد رسی کے لئے جا سکتی ہے؟ وہ طلاق، خُلع ، جائیداد ، زخمی ہونے کا یا کوئی بھی دوسرا پیچیدہ مسئلہ اگر عدالت میں لے جاتی ہے تو وہاں مُجرم بلکہ قاتل پہلے ہی سے معاملے طے کر چکا ہوتا ہے۔ یوں اس کا مقدمہ اکثر ایک مردانہ عدالت سے نکل کر دوسری مردانہ عدالت میں جا کر ختم ہو جاتا ہے اسی طرح عورت اگر دفتر میں، جیل میں اور ہسپتال میں محفوظ نہیں ہے تو گھر میں آ کر بھی شوہر کے ہاتھوں ذہنی اور روحانی طور پر لٹ جاتی ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اسے انسان نہیں محض عورت سمجھا جاتا ہے خاص طور پر بیوی کے ساتھ غیر معمولی تعصب برتا جاتا ہے۔ قارئین حیرت ہے اگر عورت کا مسئلہ صرف اپنی عزت و عفت اور انا بچانا ہی رہ جائے تو وہ اپنے حقوق کے لئے کب لڑے گی؟ وہ جو شادی کے بعد کُلی طور پر مرد پر انحصار کر رہی ہوتی ہے اُسے اگر عورت نہ سمجھا جائے صرف انسان ہی سمجھ لیا جائے تو اس کے حقوق از خود پورے ہوتے جائیں گے مرد حضرات اگر خوف خدا کے تحت اپنے مذہب کے حوالے سے خواتین کے تمام تر شرعی حقوق و فرائض پورے کریں تو معاشرے میں ہر سطح پر خواتین کی حقوق تلفی کا سلسلہ رُک جائے گا۔ تب پُورے سال میں حقوق نسواں کا صرف ایک دن منانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ پورا سال مطمیئن رہیں گی۔