سینٹ کے انتخابات نے2018 ء کے عام انتخابات کے بارے میں مطلع صاف کر دیا ہے۔ ہائوس آف شریف اور مسلم لیگ ن کو ایوان اقتدار سے باہر رکھنے کی نادیدہ کوششیں فی الحال دم توڑ گئی ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ووٹروں کے دلوں میں اپنا وجود ثابت کر دیا ہے، مشاہد حسین سید ایک بار پھر رکن سینٹ بنے ہیں۔ آصف زرداری واقعی سب پر بھاری دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ اور کے پی کے انتخابی نتائج نے یہی ثابت کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے نزدیک پیپلز پارٹی نے انکے کچھ لوگوں کو دام الفت میں لے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے جن لوگوں کی بولی لگی انہیں اس سے زیادہ قیمت نہیں مل سکتی تھی۔ عمران خان کے خیال میں خرید و فروخت کی ماہر پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اراکین اسمبلی کی بولیاں لگائیں۔ تحریک انصاف کے پی کے سے ٹارگٹ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ سینٹ الیکشن میں کوئی زور اور کوئی زر لگاتا رہا۔ ووٹ کی عزت کا شور مچانے والوں نے اپنے ارکان اسمبلی سے حلف لیا۔ کے پی کے میں کئی اراکین نے مخالف امیدوار کو ووٹ دیا۔ بلوچستان میں آزاد امیدواروں کی کامیابی سکرپٹ کیمطابق ہے۔ ایم کیو ایم کو پہلی بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم ارکان نے مرضی سے ووٹ ڈالے۔ فاروق ستار کی نظر میں سینٹ الیکشن میں نیلام گھر سجا۔ ن لیگ نے پنجاب سے جنرل نشست پر زبیر گل کو شکست اور چوہدری سرور کی کامیابی پر سر پکڑ لئے ہیں۔ ن لیگ کو چیئرمین سینٹ کی سیٹ ہاتھ سے نکلتی نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان سے منتخب سینیٹرز کی حمایت نہ ملنے کا اندیشہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا تخت لاہور پر قبضے کا خواب اسی طرح بکھرا ہے۔ جس طرح پاک فوج کے ہاتھوں 6 ستمبر 1965ء کی صبح بھارتی فوجیوں کا لاہور میں قدم جمانے اور انارکلی میںناشتے کا خواب چکنا چور ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کیلئے یہی قیمت ہے کہ وہ سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن 15 نشستیں جیت کر سینٹ کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔ خورشید شاہ کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین سینٹ ہمارا ہو گا۔ پاکستانی سیاست میں جوڑ توڑ کے چیمپئن آصف زرداری کو یوں ہی سب پر بھاری نہیں کہا جا رہا۔ کے پی کے میں12 ووٹ پیپلز پارٹی کو پڑے۔ رضا ربانی چھٹی گنتی تک ہارتے رہے۔ ساتویں پر کامیاب قرار دیئے گئے۔ نواز شریف ن لیگ کے تاحیات قائد ہونے کے باوجود پارٹی اجلاسوں کی صدارت نہیں کر سکتے۔ جلسے، جلوس تو کر سکتے ہیں۔ پارٹی اجلاس کی صدارت شہباز شریف کرینگے وہی اراکین مسلم لیگ کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرینگے۔ انکی وفاداری کا پیمانہ ’’جی حضوری‘‘ یا ہم خیالی ہے۔ انشاء اللہ وزیراعظم کے سیاسی فلسفہ میں چوہدری نثار کی طرح علیحدہ نقطہ نظر اور سوچ رکھنے والوں کو قابل بھروسہ اور وفادار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نواز اور شہباز حقیقی بھائی ضرور ہیں۔ انکے والد گرامی میاں شریف صاحب نے اپنے بچوں کو سب سے پہلا قاعدہ ’’اتفاق‘‘ کا پڑھایا تھا۔ جو دونوں بھائیوں کو آج تک ازبر ہے۔ لیکن خیالات کی دنیا اور پرواز مختلف ہے۔ شہباز شریف ’’آناً فاناً ‘‘ اور سپیڈ پر یقین رکھتے ہیں۔ مصلحت اور موقع شناسی کی تفسیر کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ دیدہ اور نادیدہ کا فرق بھی بخوبی جانتے ہیں۔ انکی گن کا رخ عمران نیازی کی طرف ہے۔ جنہیں خوب لتاڑتے ہیں۔ انہیں جھوٹ کی سیاست کے بانی کا خطاب دے رکھا ہے۔ ’’ انشا اللہ وزیراعظم‘‘ کی للکار کا رُخ ان سمتوں کی طرف نہیں ہوتا جہاں سے گرم ہوا آنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے جبکہ انکے برادر محترم نواز شریف بے خطر کود پڑنے کے قائل ہیں۔ وہ اپنے غبار دل کے آگے بند باندھنے سے عاجز ہیں۔ اپنے گرد محبان ن لیگ کو دیکھ کر ان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگتا ہے۔ بھٹو کہتے تھے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ نواز شریف بھی اسی قول کو لیکر چل رہے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ضرور ہیں لیکن یہ طاقت ور ہو کر بھی پابند سلاسل ہوئے۔ لاٹھیاں ، گولیاں اور کوڑے کھاتے رہے ہیں۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ وہ ہے جس کے فیصلے صادر اور نافذ ہوتے ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ ساتھ رکھنے والے عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے اور دار ورسن دیکھنے پر مجبور ہوتے رہے طاقت کا سرچشمہ عوام پر ہی لاٹھی، گولی کی سرکار نے حکمرانی کی۔طاقت کے سرچشمے کو بوٹوں سے دبانے والا مشرف آج بھی میڈیا پر اظہار خیال کرتا اور بیرون ملک آزادی سے گھومتا پھرتا ہے وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے سے آزاد نہ ہو کر بھی آزاد ہے۔ پھر یہ کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ طاقت کا سر چشمہ بلکہ چشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے یقین نہ آئے تو اڈیالہ سے رہائی پانے والے نہال ہاشمی سے پوچھ لیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں پارٹی صدر اور وزیراعظم کا عہدہ ایک شخص کے پاس نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے فقہ میں ’’ ٹو ان ون ‘‘ پر عمل ہوتا ہے۔ آمریت لاٹھی ، گولی والی ہی نہیں۔ انگلی کے اشاروں پر چلانے والی بھی ہوتی ہے۔ ’’ انشا اللہ وزیراعظم ‘‘ ’’خادم پاکستان‘‘ کا حلف اٹھانے سے قبل ہوم ورک کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم بن کر بھی ان کا کیمپ آفس لاہور ہو گا۔ کارکردگی لوگوں کی زبان پر ہوتی ہے پھر اشتہاروں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اشتہاروں کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے۔ جب دن بھر کیلئے بجلی بند کرنا یا ٹریفک کے بہائو کو ادھر سے ادھر کرنا ہو۔
۔ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا ریٹ فاٹا میں90 کروڑ تک پہنچ گیا تھا جبکہ کراچی میں ریٹ7 کروڑ تھا۔ سب سے زیادہ پیسہ کے پی کے میں استعمال ہوا۔ ایم کیو ایم جو چار سینیٹر منتخب کرا سکتی تھی۔ ایک تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اب ن لیگ ، پی پی پی اور کابینہ کی دوڑ کے بھی کھلاڑی کمر کس رہے ہیں اسی اثناء میں احتساب عدالت کا فیصلہ اور احد چیمہ کے انکشافات کا پنڈورا باکس کھلنے والا ہے۔ اسکے بعد ’’ انشا اللہ وزیراعظم ‘‘ کی قیادت میں ن لیگ کی نئی چال سامنے آئیگی۔ بجلی کی پیداواری لاگت اور بجلی کے بلوں کی کم رقم کے تفاوت نے نہ ختم ہونے والے گردشی قرضے کو جنم دے رکھا ہے۔ نومبر 2017ء میں قرضے کی رقم922 ارب روپے تھی۔ وزارت خزانہ کے نزدیک رقم 472.678 ارب روپے ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زرداری دور جیسا زندگی اجیرن کر دینے والا نہیں لیکن چند گھنٹے یومیہ ہونے کے ساتھ مرمت اور دیکھ بھال کے نام پر ہفتہ وار8 گھنٹے کی مسلسل لوڈ شیڈنگ والا ضرور ہے۔ پاور سیکٹر کو لاحق امراض بُری اور نااہل مینجمنٹ اور گورننس اور چوری ناقابل علاج ہیں۔ مرض کی تشخیص دہرانے سے مرض دور نہیں ہوتا۔ علاج ہی اسے دفع دور کرتا ہے۔ قومی اسمبلی میں پٹرولیم مصنوعات پر80 فیصد سے زائد ٹیکس وصولی کا انکشاف کس طرح عوام دوستی کے زمرے میں آتا ہے؟ جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں تو یہ کہہ کر سیلز ٹیکس لگایا کہ قیمتیں بڑھنے پر کم کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ چھ ماہ میں فی لٹر 30 روپے تک کا اضافہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کیا اوگرا ، نیپرا سفید ہاتھی نہیں؟ رواں مالی سال کے7 ماہ میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اربوں ڈالر قرضے لیکر بھی زرمبادلہ کے ذخائر12.7 ارب ڈالر ہیں۔ یہ رقم دو ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہیں۔ قومی اسمبلی نے1.480 کھرب روپے یا جی ڈی پی کے4.1 فیصد تک بجٹ خسارے کی منظوری دے رکھی ہے۔ خسارہ2.2 کھرب یا جی ڈی پی کے6 فیصد سے زیادہ ہونے جا رہا ہے یہ خطرے کی گھنٹی نہیں تو اور کیا ہے؟
مطلع صاف رہے گا؟
Mar 06, 2018