خونِ شاہ رنگین است!

1970ء کا واقعہ ہے، خالد محمو چیمہ(اعتزاز احسن کے بہنوئی) ڈپٹی کمشنرلائل پور (فیصل آباد) تھے۔ ان کا تعلق بھی سول سروس سے تھا۔ ضمیر جعفری مرحوم اسے سینگوں والی سروس کہتے تھے۔چیمہ صاحب سول سروس کی روائتی رعونت کے برعکس نہایت درویش منش مگر مضبوط انسان تھے۔ چونکہ ضلع کچہری ڈی سی ہائوس کے قریب تھی اس لئے یہ پیدل ہی دفتر جاتے، ان کے مکان اور دفتر کے درمیان نرسریاں تھیں۔ ایک دن نرسری کے مالک کے کتے نے انہیں کاٹ لیا چونکہ مالک کے پاس لائسنس نہیں تھا اس لئے پولیس نے اس کا چالان کر دیا۔ مقدمہ میری عدالت میں آیا۔ ملزم کے اقبال جرم پر میں نے اسے چار سو روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔ ایک ہلچل سی مچ گئی اگلے روز تمام مقامی پریس نے اس خبر کو جلی حروف میں چھاپا، عنوان قریباً ایک جیسا تھا۔ خون شاہ رنگین است، صحافی برادری کو اس بات کا علم نہ تھا کہ سزا کے فوراً بعد ڈی سی چیمہ صاحب صاحب نے اسے معطل کر دیا اور ساتھ ہی ہائی کورٹ کو لکھا چونکہ میری ذات کا سوال ہے اس لئے میں ملزم کو معاف کرتا ہوں۔
یہ بھولا بسرا واقعہ ہمیں اس لئے یاد آیا ہے کہ ایک طویل عرصہ بعد نیب نے شاہی سروس کے کسی فرد پر ہاتھ ڈالا ہے۔ احد چیمہ کو بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے الزام میں دھر لیا گیا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ بے گناہ ہے یا گنہگار سول سروس کے مرغانِ کلنگ نے طوفان کھڑا کر دیا ہے ۔سیکرٹریٹ کی تالہ بندی کر دی گئی۔ افسران ہڑتال پر چلے گئے۔ ایسا انیائے ،نیب کی یہ ہمت! آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟ خود کردہ را علاجے نیست! انہی لوگوں نے پرویز مشرف کوکہہ کر یہ قانون بنوایا، سو سالہ قانونی روایات کو خیر باد کہتے ہوئے بار ثبوت ملزم پر ڈالا گیا۔ ایک قانونی کہاوت ہےProsecution Should stand on its own legsاس قانون کی رو سے جس پر الزام ہو اسے ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے وقت سب جماعتوں نے میاں نواز شریف کو کہا، اس قانون میں ضروری ترامیم کر دیں۔ بہتوں کا بھلا ہو گا، اس وقت قبلہ عالم ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے ، ایسا قانون تو مخالفین کو روندنے اور رگیدنے کا موثر ذریعہ تھا ! انہوں نے یکسر انکار کر دیا۔ آج جبکہ نیب کے فتراک میں نخچیر بنے ہوئے ہیں تو اندلس کے حکمران معتمد کی طرح سوچتے تو ضرور ہونگے میں پشیماں ہوں، پشیماں ہے میری تدبیر بھی!
در اصل اس ایک خبر نے پرانے زخم تازہ کر دیئے ہیں، یادیں ایک یلغار کے ساتھ اُمڈ آئی ہیں۔ وقت کی راکھ کریدتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہنوز کئی چنگاریاں دبی ہوئی ہیں۔ میں صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن کا تین سال صدر رہا۔ اس وقت PCSافسران کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ مرکزی اور صوبائی سروس کے افسران مقابلہ کے امتحان کے ذریعے بھرتی کئے جاتے ہیں۔ ایک ہی قسم کے مضامین ، ایک سا معیار تعلیم، اگردونوں سروسز کے گزشتہ بیس سال کے امتحانی پرچے نکلوائے جائیں تو ان میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر سول سروس میں کوٹہ سسٹم سے پنجاب سے 15ویں نمبر پر آیا ہوا لڑکا اکثر سول سروس میں داخل نہیں ہوتا جبکہ کشمیر کوئٹہKPKوغیرہ میں سوویں نمبر پر پاس ہونے والوں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے،گویا 15ویں نمبر والا سروس کے کسی نہ کسی مرحلہ پر سوویں نمبر والے کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ سروس میں آنے کے بعد مرکزی اور صوبائی سول سروس کے افسران کو ایک ہی محکمانہ امتحان پاس کرنا ہوتا ہے ۔فیل ہونے کی صورت میں متعلقہ افسر کو نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سروس کی شرائط دیکھیں تو درمیان میں دیوار گر یہ کھڑی نظر آتی ہے۔ مرکز والا تین سال میں پروموٹ ہو جاتا ہے۔ صوبائی سروس کارکن 17/18سال میں گریڈ18حاصل کرتا تھا۔ اس کا نفسیاتی اثر وہی ہوتا تھا جسکا ذکر غالب نے کیا ہے ۔ …؎
ہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکانہ رہا
عجب آرام دیا ہے پروبالی نے مجھے
عدالتوں میں رٹے رٹائے جملے، آپ کا نام؟ باپ کا نام؟ نہ ڈھنگ کا کورٹ روم، نہ سلیقے کی رہائش! کرشن نگر یا ساندے کی تنگ و تاریک گلیوں میں کرائے کے مکان میں رہنے والے افسر کی نفسیات اس شخص کی نفسیات سے مختلف ہوتی ہے جو شادمان اور GORکے عالیشان بنگلوں میں رہتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ PCSافسر کو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بنا کر CSI افسرACکے ماتحت کر دیا جاتا تھا۔ ایک سی ایس پیDMGافسر بیس سال کی سروس میں بیس مرتبہ فارن اسکالر شپ پر باہر جاتا ہے۔ جبکہ PCSافسران اس طویل عرصے میں نجومیوں اور رمالوں کو ہاتھ دکھاتے رہتے ہیں۔ انہیں ایک ہی سکہ بند جواب ملتا ہے’’ تمہارے ہاتھ کی ریکھائوں میں سفر ہے۔ لیکن اردو والا نہیں بلکہ انگریزی والا Suffer۔
ایسا کیوں ہے؟ جب تک انگریز ہندوستان کا حاکم رہا وہ مخصوص حکمت عملی پر کار بند رہا،کہ ہندوستان میں ایک ایسی کلاس کھڑی کر دی جائے جو سرکار برطانیہ کی وفادار ہو، جو ہندوستانی ہوتے ہوئے بھی اپنے آپکو ہندوستانی نہ سمجھے جسے اپنی ثقافت ، تاریخ ، روایات سے نفرت ہو، الغرض ہر اعتبار سے وہ DEINDIANISED ہو۔
انگریز تو خوش قسمتی سے چلا گیا لیکن بد قسمتی سے ملک آزاد ہونے کے با وصف اس کے جانشینوں کی سوچ نہ بدلی۔ یہ لوگ اب بھی باہر جاکر کچھ ایسا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے انہوں نے اس ملک میں پیدا ہو کر بہت بڑی غلطی کی ہو۔تمباکو کے پائیپ کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے دریائے ٹیمز میں دھلی ہوئی انگریزی بولتے ہیں۔ اپنی قومی زبان سے یوں بدکتے ہیں جس طرح پانی سے سگ گزیدہ شخص ڈرتا ہے، غلام حیدر وائیں جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے حکم دیا کہ انہیں تمام سمریاں اردو میں بھیجی جائیں۔ اس پر انہوں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ وزیراعلیٰ ان پڑھ ہے! جاہل اور گنوار ہے! سٹھیا گیا ہے! اس نے ان افسران کی لسٹ مانگی جن کے پاس دو سے زائد پلاٹ ہیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ان کے پاس ہر سیٹ کے افسر ہوتے ہیں۔ بالفرض کوئی مولوی ضیاء قسم کا حاکم آ گیا تواسامہ موعود ٹائپ افسر آگے کر دیئے،اگرکوئی بالفرض شغل شب کا شوقین شخص نکلا تو جاوید اکرم ٹاپسی ٹائپ اس کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن گئے۔ نواب صادق قریشی نے مجھے بتایا۔ جب میں وزیر اعلیٰ بنا تو بھٹو صاحب کا شکریہ ادا کرنے گورنرہائوس گیا۔ وہ اتفاق سے لاہور کے دورے پر تھے۔ کہنے لگے صادق ، تم ہر شام ہوٹل انٹر نیشنل میں جاوید اکرم ٹاپسی CSPکے ساتھ شراب پیتے ہو ! بات درست تھی، میرے پائوں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی، یہ شخص کس قدر معلومات رکھتا ہے‘‘۔ میرے کچھ کہنے سے قبل ہی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔ DONT DO IT NOW اب تم وزیر نہیں رہے، وزیر اعلیٰ بن گئے ہو۔ یہ سول سرونٹس بہت چالاک ہوتے ہیں۔ وقت آنے پربلیک میل کرتے ہیں! کبھی بھی ان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔
5۔ ہم نے چوہدری پرویز الٰہی کو مدعو کیا، پنجاب کے بارہ سو افسر اکٹھے ہوئے، میں نے اپنی تقریر میں افسران کی محرومیوں، جائز مطالبات اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا۔ جہاں تک ممکن تھا کچھ مطالبات منظور ہوئے اس ساری جدو جہد میں جاوید اقبال بخاری سیکرٹری ایسوسی ایشن نے بڑی محنت کی، ان کا شمار بلا شبہ بہترین افسروں میں ہوتا ہے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو!
شاید یہ سلسلہ اور آگے بڑھتا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ چوہدری صاحب کی جگہ مخدوم پنجاب وزیر اعلیٰ بن گئے۔ میں ریٹائر ہو گیا میری جگہ کچھ برسوں بعد رائے منظور ناصر صدر ایسوسی ایشن بن گیا۔ گرم خون نا تجربہ کار، کچھ کرگزرنے کا جذبہ! یہ وہی حرکت کر بیٹھا جس کے مرتکب موجودہ افسران ہوئے ہیں۔ ہڑتال ! نتیجتاً سو افسر گرفتار ہوئے، مکافات عمل دیکھیں انہیں گرفتار کرنے والا احد چیمہ تھا، جو اس وقت ڈی سی لاہور تھا۔
اب ہو گا کیا؟ عمران خان نے کہا ہے چیمہ ایک ایسا طوطا ہے جس میں مخدوم پنجاب کی جان ہے۔ یہ آہستہ آہستہ سب اگل دے گا۔ خان صاحب کی خوش فہمیاں اپنی جگہ لیکن ہم سمجھتے ہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ایسا ہونا اس وقت ممکن ہے جب آمر کی حکومت ہو اور وہ سابقہ حکمران سے مخاصمت رکھتا ہو۔ یا تفتیشی ادارے تشدد کریں، مرکز اور پنجاب میں ان لوگوںکی حکومت ہے جن پر الزام تراشی ہو رہی ہے۔ معروضی حالات میں تفتیشی ٹیم تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پھر کوئی شخص بھی اپنی تباہی کا مصنف نہیں بنتا۔ ضمیر کی خلش ماہیت قلب، وہ ’’ فرسودہ اصطلاحیں‘‘ ہیں جن کا صرف قصے کہانیوں میں ذکرہوتا ہے۔ یہ اس طاقتور کلاس کا فرد ہے جوسائے کی طرح اس کے ساتھ چل رہی ہے اور سائبان کی طرح اسے گرم ہوائوں سے محفوظ رکھے گی۔ اگر بے گناہ ہے تو چند دن بعد باہر آ جائے گا۔ بالفرض نہیں ہے تو بھی مقدمہ اس قدر طول کھینچے گا کہ کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے گا! زور اور زر گھوڑی کو صرف چلاتے ہی نہیں ، سرپٹ دوڑاتے بھی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...