90ویں آسکر ایوارڈز 2018ء

Mar 06, 2018

شاذیہ سعید
shazi1730@hotmail.com


ہر سال کی طرح اس برس بھی آسکرایوارڈز 2018ء کی90ویں رنگا رنگ تقریب کا انعقاد لانس اینجلس میں ہالی ووڈ کے ڈالبی ٹھیٹرمیں ہوا۔ اس برس بہترین فلم میں آسکر ایوارڈ ’’دی شیپ آف واٹر ‘‘ نے پورے حق سے اپنے نام کیا جبکہ بہترین فلموں کی دیگر نامزدگیوں میں ’’کال می بائے یور نیم‘‘،’’ ڈارکسٹ آور‘‘،’’ ڈنکرک‘‘،’’ گیٹ آؤٹ‘‘،’’ لیڈی برڈ‘‘،’’ فینٹم تھریڈ‘‘،’’ دی پوسٹ‘‘،’’تھری بلبورڈز آؤٹ سائڈ ایبنگ میزوری‘‘ شامل تھیں۔آکیڈمی ایوارڈز 2018ء میں ’’گیری اولڈمین‘‘ نے فلم ڈارکسٹ آور کے لئے بطور بہترین اداکار آسکر اپنے نام کر لیا جبکہ اس کی دیگر نامزدگیوں میں ٹیموتھی شالامیٹ (کال می بائے یور نیم)، ڈینیئل ڈے لیوس (فینٹم تھریڈ)، ڈینیئل کلویا (گیٹ آؤٹ)، ڈینزیل واشنگٹن (رومن جے اسرائیل)ایک دوسرے کے مدمقابل رہے۔بہترین اداکارہ کے لئے آسکر فرانسز میکڈورمنڈ کوفلم ’’تھری بلبورڈ آؤٹ سائڈ ایبنگ میزوری‘‘ کے نام گیا جبکہ اس ریس میں سیلی ہاکنز (دی شیپ آف واٹر)، مارگوٹ روبی (آئی ٹونیا)، ساؤریس رونن (لیڈی برڈ)، میرل سٹریپ (دی پوسٹ) شامل تھیں۔بہترین ہدایت کار میںآسکر کی ٹرافی گیولرمو ڈیل ٹورو (شیپ آف واٹر) نے جیت کی جبکہ اسکی دیگر نمازدگیوں میں کرسٹوفر نولان (ڈنکرک)، جارڈن پیلی (گیٹ آؤٹ)،گریٹا گروگ (لیڈی برڈ) اور پال تھومس اینڈرسن (فینٹم تھریڈ) کے نام شامل تھے۔اکیڈمی ایوارڈ میںبہترین معاون اداکارہ کا تمغہ ایلیسن جینی نے فلم ’’آئی ٹونیا‘‘ کے لئے حاصل کر لیا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں اس شام کی بہترین مقرر بھی قرار دیا گیا۔ اس کیٹگری کے لئے میری جے بلائگ (مڈباؤنڈ)، لوری میٹکاف (لیڈی برڈ)، لیسلی مینوائل (فینٹم تھریڈ)، اوکاویا سپینسر (دی شیپ آف واٹر) کے نامزد رہیں۔معاون اداکارکے لئے سیم راکویل کو فلم تھری بلبورڈ آؤٹ سائڈ ایبنگ میزوری کے لئے آسکر سے نوازا گیا جبکہ اس کیٹگری کی دیگر نامزدگیوںمیں ویلم ڈیفو (دی فلوریڈا پروجیکٹ)، ووڈی ہیرلسن (تھری بلبورڈ آؤٹ سائڈ ایبنگ میسزوری)، رچرڈ جینکنز (دی شیپ آف واٹر)، کرسٹوفر پلمر (آل دی منی ان دی ورلڈ) کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔اوریجنل اسکرین پلے کے لئے دی بگ سک، گیٹ آؤٹ، لیڈی برڈ، دی شیپ آف واٹر، تھری بلبورڈ آؤٹ سائڈ ایبنگ میزوری کے نام شام تھے جبکہ ’’گیٹ آؤٹ ‘‘نے یہ ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔ اینی میٹڈ فیچر فلم کی کیٹگری میں دی باس بے بی، دی بریڈ ونر، کوکو، فرڈیننڈ، لونگ ونسینٹ نامزدگی کی گئیں جبکہ جیت کا سہرا فلم ’’کوکو‘‘ کے سر سجا ساتھ ہی ساتھ اینیمیٹڈ شارٹ فلموں میں ’’ڈئیر باسکٹ بال‘‘کو ایوارڈ ملا جس کی دیگر نامزدگیوں میں گارڈن پارٹی، لو، نیگٹو سپیس اور ویوالٹنگ رائم شامل ہیں۔غیر ملکی زبان کی فلم کیٹگری میں اے فینٹاسٹک وومن (چلی) نے ایوارڈ جیتا جبکہ دیگر فلموں میں دی انسلٹ (لبنان)، لولیس (روس)، باڈی اینڈ سول (ہنگری)، دی سکوئر (سویڈن) شامل رہیں۔ڈاکیومنٹری فیچر فلم میں ایکرس نے ایوارڈ حاصل کیا جبکہ دیگر نامزدگیوں میں ایبیکس، فیسز/پلیسز، ، لاسٹ مین ان الیپو، اسٹرانگ آئی لینڈکو شامل کیا گیا۔اوریجنل اسکور کا ایوارڈ ’’دی شیپ آف واٹر کو ملا جبکہ اس کی دیگر نامزدگیوں میں ڈنکرک، فینٹم تھریڈ،سٹار وارز دی لاسٹ جیڈی اور تھری بلبورڈز آؤٹ سائیڈ ایبنگ میزوری شامل رہیں۔بہترین گانے میں فلم کوکو کا گانا ’’ریمیمبر می‘‘ آسکرایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ مڈباؤنڈ کے گانے مائٹی ریور،کال می بائے یورنیم کے مسٹری آف لو ،مارشل کے گانے اسٹینڈ اپ فورسم تھنگ اورگریٹیسٹ شومین کا دس ازمی اس قسمت آزمائی میں پیچھے رہ گئیں۔بہترین سینماٹوگرافی کا ایوارڈ ’’بلیڈ رنر 2049‘‘ کے نام ہوا ، بہترین ایڈیٹنگ کا ایوارڈ ’’ڈنکرک نے جیتا، بہترین شارٹ ڈاکومینٹری ’’ہیون از اے ٹریفک جیم آن دی405‘‘ رہی، بہترین ویژویل افیکٹس بلیڈ رنر 2049کے رہے، بہترین ساؤنڈ مکسنگ ڈنکرک کی تھی، بہترین پروڈکشن ڈیزائن ’’دی شیپ آف واٹر‘‘ کا تھا، بہترین میک اپ ڈارکیسٹ آوور کا تھا جبکہ بہترین کاسٹیوم ڈایزئن کے لئے آسکر ایوارڈ فلم فینٹم تھریڈ نے اپنے نال کر لیا۔
اکیڈمی ایوارڈ کی میزبانی اس بار بھی جمی کمیل نے کی۔ میزبان جمی کیمل کے سٹیج سے آنے سے قبل حسب معمول بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو چلائی گئی جس میں تقریب میں شامل اداکاروں کو دکھایا گیا۔ جمی کیمل نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ وہ شکر گزار ہیں کہ ان کو دوسرے سال اس تقریب کی میزبانی کا شرف بخشا گیا ہے۔ انہوں نے پچھلے سال لفافوں کی غلطی کے باعث بہترین فلم کا ایوارڈ دوسری فلم کو دینے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال اگر آپ اپنا نام سنیں تو فوراً کھڑے مت ہو جائیں گا جس سے ہال قہہقں سے گونج اٹھا۔آسکر کی اس تقریب میں ’’ می ٹو‘‘ مہم کا چرچا عام رہا جس کا تذکرہ شو کے میزبان جمی نے بھی اپنے ابتدائیہ کلمات میں کیا۔ تقریب میں پہناوے کی بات کریں تو کسی بھی قسم کے ڈریس کوڈ کو مد نظر نہیں رکھا گیا البتہ چند ایک فنکاروں نے اپنے پرانے دنوں کی یاد میں خاص لباس زیب تن کیا۔آسکر کی یہ تقریب پاکستانی وقت کے مطابق5مارچ صبح 9بجے تمام تر رعنائیوں کے ہمراہ اختتام پذیر ہوئی۔
آسکر یا اکیڈمی ایوارڈ کا اجراء اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹ اینڈ سائنس نے 1992ء میں کیا۔ اس ایوارڈ کا مقصد ہالی وڈ میں کام کرنے والے تکنیکی ماہرین سے لے کر اداکاروں تک سب کی صلاحیتوں اور کام کو سراہنا ہے تاکہ ان میں مزید اور اچھا کام کرنے کی جہت پیدا کی جاسکے اور عوام کو اچھی اور تخلیقی تفریح فراہم کی جاسکے۔یہ میڈیا کی دنیا میں منعقد کی جانی والی سب سے قدیم تقریب ہے جسے ہر سال200 ممالک میں لائیو دیکھا جاتا ہے۔ آسکر ایوارڈ کیلئے ناصرف ہالی وڈ بلکہ دنیا بھر کی فلم انڈسٹریز سے بہترین فلموں‘ ڈایریکٹروں ‘ پرڈیوسروں اور تکنیکی ماہرین کو نامزد کیا جاتا ہے۔ آسکر ایوارڈ کو جیت کا خاصا سمجھا جاتا ہے جسے حاصل کرنے کیلئے دنیا بھر کی فلم انڈسٹریز کے مابین ایک دوڑ لگ جاتی ہے اور سارا سال محنت کی جاتی ہے کہ نجانے کب اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر آسکر کی جیت کا سہرا اپنے سر کر لیں اس کیلئے ڈائریکٹر اور پرڈیوسر حضرات اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو آزماتے ہیں اور ناظرین کو ایک بہترین تفریح فراہم کرتے ہیں۔ آسکر ایوارڈ ایک مجسمے کی صورت پر مشتمل ہے جس نے اپنے ہاتھ میں ایک تلوارتھام رکھی ہے جو کہ 92.5 فیصد ٹین‘7.5 تانبے اور سانے سے بنا ہوا ہے۔ اس ٹرافی کے تخلیق کار ایم جی ایم آرٹ ڈائریکٹر کیڈریک گبنز ہیں ۔ اس ٹرافی کو آسکر کا نام کس نے اس بارے میں بے شمار ابہام پائے جاتے ہیں۔بیٹی ڈیوس نامی خاتون نے دعویٰ کیا کہ آسکر ایوارڈ کا نام انکے مرحوم خاوند ہارمن آسکر نیلسن کے نام پر رکھا گیا ہے تو کسی نے کہا کہ یہ نام انکے کسی کزن کے نام پر رکھا گیا ہے حتیٰ کہ والٹ ڈزنی بھی انہی دعوے داروں میں شامل ہیں۔ مجسمے کی شکل کی ٹرافی کو آسکر اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹ اینڈ سائنس ہر سال آر ایس نامی کمپنی سے یہ ایوارڈ خریدتی ہے جسکی قیمت میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ 2004ء میں ایوارڈ کیلئے نامزدگیوں کو پبلک کے سامنے رکھا گیا۔ ایوراڈ کے آغاز سے قبل بورڈ آف گورنر کی جانب سے دنیا بھر میں موجود اے ایم پی اے ایس کے ممبران کو اس تقریب میں شمولیت کے لئے دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں۔ جس میں یہ ارکان اپنی انڈسٹری کے ترجمان کی حیثیت اپنی اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں جس میں بورڈ ممبرز بہترین فلموں‘ مصنفین‘ میوسیقی‘ ڈائریکٹرز‘ پرڈیوسرز‘ گلوکار‘ اداکار‘ بہترین سین‘ ٹیلکنیکل ورک غرض ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے اسکے بعد پبلک پولنگ کیلئے بھیج دیا جاتا ہے جس میں عوام یہ طے کرتی ہے کہ کون آسکر ایورڈ کا حق دار ہے۔ اے ایم پی اے ایس کے بورڈ ممران کا بھی ہر سال انتخاب کیا جاتا ہے انکی تعداد چھ ہزار پر مشتمل ہوتی ہے۔ آسکر کیلئے پیش کی جانی فلم کے انتخاب کیلئے پورا سال کام ہوتا ہے تاکہ ہر چیز کو مد نظر رکھ کر اس کا فیصلہ کیا جاسکے۔آسکر ایوارڈ کی تقریب چونکہ اعلیٰ سطحی تقریب ہے اسی نسبت سے اسکا اہتمام بھی کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف ہالہ وڈ بلکہ دوسرے ممالک کی انڈسڑیز بھی اس رنگا رنگ تقریب سے لطف اندوز ہو سکیں اس تقریب کا چرچا سارا سال جاری رہتا ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت ہر آنے والے آسکر کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اسکی وجہ میڈیا کی تیز رفتاری اور تخلیقی آرٹ کی سمجھ ہے جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہر خاص وعام جانتا ہے کہ کس فلم میں کیا چیزکمزور تھی اور کیا قابل ستائش۔ آج کی عوام کو شور شرابے سے مطمئین نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ خالص تفریح کی تلاش میں رہتے ہیں۔

مزیدخبریں