موسیقار نثار بزمی

Mar 06, 2018

تحریر: شاہد لطیف

میں نے 1981 کے اوائل میں اخبارات میں پڑھا کہ ملک کے نامور موسیقار نثار بزمی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں اور ای ایم آئی پاکستان، کراچی سٹوڈیوز میں گلوکارہ رونا لیلیٰ سے ایک تجرباتی دھمال ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ خاکسار اُ س وقت پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز سے منسلک تھا۔ پروڈیوسر سلطانہ صدیقی صاحبہ سے بات کی کہ کیوں نہ اپنا ہفتہ وار موسیقی کا پروگرام ’’سُر سنگم‘‘ نثار بزمی صاحب سے کروایا جائے۔ دوسرے ہی روز دن کے گیارہ بجے EMI کراچی سٹوڈیوز کے کنٹرول روم میںپہلی دفعہ نثار بزمی صاحب کو دیکھا جو مکسنگ Mixing کروا رہے تھے۔ راقم نے اندر داخل ہو کر بہ آوازِ بلند السلام علیکم کہا، انہوں نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا او ر کام میں مصروف ہو گئے۔ وقفہ میں میری طرف رُخ کر کے آنے کا مقصد پوچھا۔ میرے مونہہ سے بیساختہ نکلا: ’’آپ کے بارے میں جیسے سنا تھا ویسے ہی پایا‘‘۔ اس پر مسکر ا کر پوچھا : ’’ کیا سنا تھا؟‘‘ میں نے جواباً کہا ’’یہ کہ بزمی صاحب بہت سخت اور غصہ والے ہیں‘‘۔ اس بات پر دوبارہ مسکرا کر بولے ’’دیکھو میاں! کسی نے پیسے دے کر سٹوڈیو کی شفٹ لی ہے، اب وقت کو باتوں میں گزارنا بددیانتی ہوتی۔ ہاں البتہ اب وقفہ میں بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں‘‘۔ راقِم نے موسیقی کے پروگرام ’ سر سنگم ‘ کا ایک پروگرام ان سے کروانے کی خواہش ظاہر کی۔ ابھی میری بات ختم بھی نہ ہوئی ہو گی کہ انہوں نے فوری سوال داغ دیا۔’’ تمہارے خیال میں کیا مجھے یہ پروگرام کرنا چاہیے؟‘‘ اُن کے سوال نے تو چکرا کر رکھ دیا۔ جواب میں کچھ سچ ہی کہنا پڑا ’’میرے حساب سے تو آپ نہیں کریں گے‘‘۔ اِس پر مسکر ا ئے اور نرم لہجے میںکہا ’’میں اپنی چند ایک شرائط کے ساتھ یہ پروگرام کر لوں گا‘‘۔ میرے پاس ان کی اس بات کا کوئی جواب بن نہیں پا رہا تھا، لہٰذا خاموش رہا۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے ’’پہلی بات یہ کہ گیتوں کی ریہرسل میرے گھر میں ہو گی۔ دوسرے یہ کہ جو دھن اور بول منتخب ہو جائیں وہ تبدیل نہیں ہوں گے‘‘۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ مُسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’ایک اور بھی شرط ہے‘‘۔ اس وقت میرے ذہن میں فوری خیال آیا کہ وہ توقع سے زیادہ معاوضے کی بات کریں گے۔ ’’میاں لگتا ہے تمہیں موسیقی کی ابجد سے کچھ واقفیت ہے، لہٰذا صدابندی تک ہر ایک مرحلہ میںتم میرے ساتھ رہو گے‘‘۔ اُنہوں نے کِن معنوں میں یہ بات کہی، میں نہیں جانتا البتہ اِس خوبصورت شرط کی بدولت 15 دِن میں نے بزمی صاحب کی دہلیز پکڑ لی۔
واپس آ کر یہ معرکہ سلطانہ صدیقی صاحبہ کو سنایا جو بہت خوش ہوئیں۔ پھر سکرپٹ ایڈیٹر جناب مدبر رضوی صاحب سے ملاقات کی کہ کس شاعر کو بلوایا جائے۔ طے ہوا کہ ایک گیت میرؔا جی کا اور ایک عمران رزاقی کا لیا جائے جو اس وقت پی ٹی وی میں معاون پروڈیوسر تھے اور خاصہ اچھا کہتے بھی تھے اور باقی تمام گیت، جناب صابر ظفر صاحب سے لکھوائے جائیں۔ انہوں نے ریکارڈ کم وقت میں میرے سامنے دھن پر اور دھن کے بغیر بہت عمدہ گیت لکھے۔ گلوکارہ عابدہ پروین نے اپنے اول اول اردو گیت بھی اسی موسیقی کے ہفتہ وار پروگرام ’سُر سنگم‘ میں پیش کئے تھے۔ میرا ؔجی کے اس گیت کو عابدہ پروین کی آواز میں صدابند کیا گیا: ’’مورکھ من کو کون سجھائے، کون اب دھیر بندھائے…‘‘ عمران رزاقی کا یہ گیت گلوکار محمد علی شہکی کی آواز میں صدابند ہوا: ’’محبتوں کے چراغ لے کر یہ لوگ جانے کہاں گئے ہیں…‘‘ نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ یہ ذہین شخص، کچھ عرصہ بعد قتل کے ایک جرم میں سینٹرل جیل کراچی چلا گیا اور و ہاں خود پراسرار طور پر قتل ہو گیا۔ گلوکار امجد حسین، تحسین جاوید، فاطمہ جعفری، ٹینا ثانی، ماریہ حسین، یوسف لاثانی، ابراھیم ڈاڈا وغیرہ نے بھی دھنوں کا حق ادا کر دیا۔ پروگرام ’’سر سنگم‘‘ کے گیتوں کی صدابندی ساونڈ انجینئر شریف، اکبر قریشی اور سلیم قریشی صاحبان نے بڑی جانفشانی سے شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں کی۔ پھر معمول کے مطابق ٹیلی وژن سٹوڈیو میں ویڈیو ڑیکارڈنگ ہوئی، اور یہ نشر بھی ہو گیا۔
ان دس پندرہ دنوں میں علاوہ اس ایک کام کے، مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں۔ یہ عرصہ میری زندگی کا بہترین زمانہ ہے۔ بزمی صاحب کو ایک عالم جانتا ہے، مگر میں نے جس نثار بزمی کی دہلیز پکڑ ی وہ ایک ایسی بزم تھی جس پر ہر وقت نثار ہو جانے کو دِل چاہے۔ نہایت سیدھے سادھے، صاف گو، اُجلے من والے انسان تھے۔ اُن کی شخصیت میں ایک ایسا سحر تھا کی دل ان کی جانب کھنچتا تھا۔وہ ایک شفیق باپ اور ذمّہ دار شوہر بھی تھے۔ چونکہ خود سادہ طبیعت والے تھے لہٰذا گھر میں سادگی نظر آیا کرتی۔
بزمی صاحب نے مجھے بتایا کہ پاکستان آنے سے قبل، بمبئی میں وہ تقریباً 15سال، تیسرے درجے کے موسیقار رہے۔ یہ بھی کہ ایک عرصہ لکشمی کانت اور پیارے لال، ان کے سازندے رہے۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس سال بزمی صاحب کی پہلی پاکستانی فلم ’’ ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ کے گیتوں نے ریڈیو پاکستان سے نشر ہو کر دھوم مچا دی، اسی زمانے میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقار جوڑی کا پہلا فلمی گیت ’’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے…‘‘ بھارت اور پاکستان میں سُپرہِٹ رہا۔ مجھے دو دفعہ جناب لکشمی کانت اور مشہور بھارتی فلمی شاعر آنجہانی آنند بخشی صاحب سے گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ آنند بخشی فرماتے تھے کہ مجھے فلمی دنیا میں لانے والے سید نثار ہیں۔ لکشمی کانت کا کہنا تھا کہ آج وہ اور پیارے لال جِس مقام پر ہیں وہ بزمی صاحب ہی کے مرہونِ منت ہے۔
بزمی صاحب خود بھی بہترین کام کرتے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے۔ اسی لئے شاید ان کے سخت ہونے کے چرچے تھے۔ وہ بڑے محبِ وطن تھے۔ جب کوئی شخص اِن کے سامنے ملک کی برائی کرتا تو یکدم جلال میںآ جا تے اور کہتے: ’’پاکستان کو میرے سامنے برا مت کہو۔ میں کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک تیسرے درجے کے موسیقار سے بلند ہو کر Outstanding کا درجہ پا لوں گا‘‘۔ اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یاد آ گئی۔ ایک مرتبہ فلمی شاعرکلیم عثمانی صاحب کا ذکر آ گیا ۔ کہنے لگے: ’’ایک رو ز فجر کے وقت کلیم عثمانی میرے گھر آئے۔ پوچھا خیریت‘‘؟ جواب دیا ’’ابھی تھوڑی دیر قبل ادھ سوئی ادھ جاگی کیفیت میں عجیب ماجرا ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قائدِاعظمؒ کمرے میں غصہ کی حالت میں آئے اور کہ رہے ہیں کہ میرے ملک کا تم لوگوں نے کیا خراب حال کر رکھا ہے؟ تم لوگوں نے تو مایوس ہی کیا! ہاں! اگر کسی سے اچھی امید ہے تو وہ اس ملک کے بچے ہیں۔ بس تب سے طبیعت سخت مضطرب ہے‘‘۔ بزمی صاحب نے جواب دیا: ’’قائدؒ نے کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا۔ سب کو آزما کے دیکھ لیا، اب ان بچوں سے ہی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ بس وہ کچھ ایسا لمحہ تھا کہ بیساختہ کلیم عثمانی کو ایک خیال سوجھا کہ ’’تم ہو پاسباں اس کے‘‘۔ بس پھر کیا تھا مکھڑا بن گیا۔ گویا بانیِ پاکستان اس ملک کے بچوں سے کہ رہے ہیں: ’’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے…‘‘ اس طرح سے ریکارڈ کم وقت میں بے مثال طرز کے ساتھ یہ نغمہ مکمل ہوا۔ جس کومہدی حسن کی آواز میںپاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے اختر وقار عظیم صاحب نے پیش کیا۔
بزمی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات میر ا قیمتی خزانہ ہیں اور مجھے بزمی صاحب کی جوتیاں سیدھی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

مزیدخبریں