اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے جن کا کام ہے انہوں نے نہیں کیا، خدمت کرنے آئے ہیں تو خدمت کریں۔ سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز پر درختوں کی کٹائی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی تو سروے جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ جبکہ سی ڈی اے نے اسلام آباد کی حد بندی رپورٹ جمع کرائی، سروے آف پاکستان کا حد بندی سرٹیفکیٹ اور اسلام آباد کی حد بندی کا سیٹلائٹ امیج بھی جمع کرایا گیا۔ انٹرنیشنل جی پی ایس ٹریکنگ نمبر بھی رپورٹ کے ساتھ جمع کرائے گئے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اسلام آباد کب سے بنا ہوا ہے لیکن ڈرافٹ رولز نہیں بنے، صدیاں گزر گئی ہیں اسلام آباد میں رولز کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا اگر ہم بولتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارے کام میں مداخلت ہورہی ہے، کہتے ہیں عدلیہ ایگزیکٹو اتھارٹی میں مداخلت کررہی ہے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا ہم ہدایات بھی نہ دیں تو کیا دے کرجائیں گے اپنے بچوں کو۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ وکیل صفائی شاہ خاور نے کہا خیبر پی کے منرل گورننس ایکٹ کو ہم نے چیلنج کررکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ ڈائریکٹ سپریم کورٹ نہیں آسکتے پہلے آپ ہائی کورٹ جائیں، بعدازاں سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کو مقدمے کا چھ ہفتے میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹادی۔ چیف جسٹس نے کہا اسلام آباد میں درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا درختوں کی کٹائی کا معاملہ اسلام آباد کے زون 5 میں ہے، چیف جسٹس نے کہا سی ڈی اے نے ابھی تک قوانین نہیں بنائے، اونچا بولتے ہیں تو کہتے ہیں مداخلت ہورہی ہے، جو کام نہیں کرتے انکے کام میں مداخلت کررہے ہیں، خدمت کے لیے آئے ہیں تو پھر خدمت کریں، ہم بچوں کو کیا دے کر جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری کو بھی طلب کرلیا۔ وقفہ کے بعد کیس کی سماعت ہوئی تو سرکاری وکیل آفنان کندی نے عدالت کو بتایا وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری عدالت حاضر ہوئے تھے انہوں نے ضروری کام سے کراچی جانا تھا وہ عدالت کو انفارم کرکے چلے گئے ہیں ، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ کوئی طریقہ نہیں انہیں انتظار کرنا چاہئے تھا، بعدازاں عدالت نے سی ڈی اے سے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔