ووٹ کو عزت نہ دینے پر عوام بغاوت کر رہے ہیں، کرنی بھی چاہئے: نواز شریف

اسلام آباد (نامہ نگار/وقائع نگار خصوصی) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات میں جہاں پیسہ چلا اور ووٹ خریدے گئے اس کا حساب کتاب ہونا چاہئے، پاکستان کے عوام کوئی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں کہ وہ ووٹ دیکر وزیراعظم بنائیں اور چار پانچ لوگ اسے وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر باہر پھینک دیں، عوام اب سکھا شاہی برداشت کرنے کو تیار نہیں، ووٹ کو عزت نہ دینے پر عوام بغاوت کر رہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہیے، سرگودھا میں ہمارے امیدوار نے شیر کے نشان کے بغیر الیکشن لڑا اور 20ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، پاکستان کے عوام جان گئے کہ ہمارا بیانیہ اور اصولی موقف درست ہے، انتخابی نشان چھیننے سے کیا ہمارا نشان مٹادیں گے؟ تم جتنا ظلم کرو گے، اتنا ہی ردعمل آئے گا اور عوام اتنا ہی ن لیگ کا ساتھ دیں گے، میں نہیں کہتا بلکہ اب عوام یہ کہتی ہے ووٹ کو عزت دو، پاکستان میرا اور سب کا ملک ہے، یہ کسی فرد واحد کا ملک نہیں ہے کہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے، ہم لوگ کھڑے ہیں اور اپنی قربانی دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار نواز شریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ سینٹ انتخابات میں جہاں پیسہ چلا اور ووٹ خریدے گئے اس کا حساب کتاب ہونا چاہیے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا اب اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا حق کون سی جماعت کو پہنچتا ہے کہ جس کا ایک بھی رکن صوبہ میں نہ ہو اور وہ وہاں سینٹ کے لیے اپنا امیدوار کھڑا کر دے، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دھاندلی کی ہے کہ نہیں کی اور اس کی تہہ تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کا کھیل ملک کے اندر نہیں ہونا چاہیے اور یہ نظام بھی بدلنا چاہیے اور پیسے کے کھیل کو دفن ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن اس دفعہ تو کھلے عام ہوا ہے۔ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے کہ ہمارا نشان بھی لے لیا گیا۔ ہمارے سینیٹرز بغیر نشان کے الیکشن لڑے ہیں ان کو نشان سے بھی محروم کر دیا گیا اور لوگوں کے لیے نشان کے بغیر کسی کو پہچاننا بڑا مشکل ہوا یہ بہت زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ میں مشکلات حائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) نے سرگودھا میں 20ہزار کی لیڈ سے الیکشن جیتا ہے۔ اس میں ہمارے امیدوار کے پاس شیر کا نشان نہیں تھا وہ بھی اس سے چھین لیا گیا۔ جیسے ہمارے سینٹ کے امیدواروں سے نشان چھین لیا گیا اسی طرح سرگودھا میں ہمارے امیدوار سے شیر کا نشان چھین لیا گیا اور اس کو پک اپ کا نشان دے دیا گیا جس کو ڈالہ کہتے ہیں اور وہ ڈالے کے نشان پر الیکشن لڑا ہے اس کے باوجود 20ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوا ہے۔ یہ نشان چھیننے سے کیا ہمارا نشان مٹا دیں گے جتنا یہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی پاکستان کے عوام بڑھ چڑھ کر ہمارا ساتھ دیتے ہیں اس سے آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ تم جتنا ظلم کرو گے اسی قدر عوام رد عمل کا اظہار کریں گے جتنا ظلم کرو گے عوام اتنا ہی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیں گے کیوں کہ پاکستان کے عوام اب اس مقصد کو جان چکے ہیں اور وہ پوری طرح محسوس کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور ہمارا جو بیانیہ اور موقف ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ میں نہیں کہتا اب عوام کہتی ہے ووٹ کو عزت دو۔ میں یہ نعرہ عوام سے خود سنتا ہوں۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان کے عوام دن بدن باشعور ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہمارے ووٹ کی یہ عزت ہے۔ ہم ووٹ دے کر وزیر اعظم بنائیں اور اس کو جوتی کی نوک پر نکال کر باہر کر دیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ جو موڈ میں عوام کا دیکھ رہا ہوں وہ اب یہ سکھا شاہی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور عوام بغاوت کر رہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہیے۔ پاکستان کے عوام کوئی بھیڑ ، بکریاں ہیں کہ وہ ووٹ دے کر وزیر اعظم بنائیں اور چار پانچ لوگ اسے وزیر اعظم ہائوس سے اٹھا کر باہر پھینک دیں اور وہ بھی بغیر کوئی وجہ کے وزیر اعظم نے کسی کو قتل نہیں کیا، کسی کا خون نہیں کیا۔ کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ وزیر اعظم کوئی چور، ڈاکو نہیں ہے۔ سمگلر نہیں ہے اور منشیات کا کام نہیں کرتا اور وہ سسلیئن مافیا نہیں ہے اور وہ گاڈ فادر نہیں ہے آپ اس کو اس طرح اٹھا کر باہر پھینکیں یہ پاکستان کے عوام اب برداشت نہیں کریں گے۔ جو میں د یکھ رہا ہوں اور کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ ظلم کے آگے کھڑا ہونا بہت ضروری ہے جو ظلم کے آگے کھڑا نہیں ہوتا وہ خود سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے یہ نہ چلے گا نہ ہم اس کو چلنے دیں گے۔ پاکستان میرا اور سب کا ملک ہے یہ کسی فرد واحد کا ملک نہیں ہے کہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔ 22کروڑ عوام کو بھیڑ، بکریوں کی طرح جدھر موڑیں اور جدھر ہانکیں ادھر چلے جائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نہیں ہو گا وہ وقت گزر گئے جب اس طرح سے ہوتا تھا اب نہیں ہوگا اور اس کو نہیں ہونا چاہیے۔ ہم لوگ کھڑے ہیں اور اپنی قربانی دے رہے ہیں آج حکومت سے باہر کر دیا گیا ہے مجھے پارٹی کی صدارت سے بھی باہر کر دیا گیا ہے۔ ابھی پتہ نہیں کہیں گے جناب آپ کو اتنے سالوں کے لیے نا اہل قرار دیتے ہیں یہ ادھر سے نا اہل قرار دے رہے ہیں اور عوام اہل قرار دے رہے ہیں۔ یہ مجھے پارٹی صدارت سے محروم کر رہے ہیں اور عوام کہتے ہیں ہمارا لیڈر ہے ہی نواز شریف۔ مجھے وزارت عظمی سے نکال کر باہر کیا تو کیا کسی نے یہ فیصلہ مانا، کسی نے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ ہاں اگر فیصلے میں کوئی جان ہوتی تو تسلیم کرتے اگر فیصلہ کے اندر کوئی بنیاد ہوتی اور کوئی جواز ہوتا تو عوام مانتی اور عوام کہتی کہ بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے لیکن جب عوام نے پہلے دن ہی اس کو رد کر دیا تو میڈیا سمجھ سکتا ہے کہ اس فیصلہ کے اندر کتنی قوت اور فیصلہ کتنا غلط تھا۔ ہم نے غلط کو غلط کہنا ہے اور صحیح کو صحیح کہنا ہے۔ سچ کو سچ کہنا ہے اور باطل کو باطل کہنا ہے یہ پاکستانی قوم کا ماٹو ہونا چاہیے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی 70 سال جو ہمارے گزرے ہیں آئندہ 70 سال ایسے نہیں گزرنے چاہئیں میں اس کے لیے میدان میں کھڑا ہوں اور پاکستانی قوم ہمارا ساتھ دے رہی ہے میں پاکستانی قوم کا احسان مند ہوں۔
اسلام آباد+راولپنڈی (نا مہ نگار+اپنے سٹاف رپورٹر سے) سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کیخلاف فلیگ شپ ضمنی ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ عبدالحنان پر جرح مکمل کرنے کے بعد سماعت 7مارچ تک ملتوی کردی گئی۔ پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ضمنی ریفرنس کی سماعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی طبیعت خراب ہے اگر عدالت اجازت دے تو وہ چلے جائیں۔جس پر عدالت نے سابق وزیراعظم کو حاضری لگا کر عدالت سے جانے کی اجازت دے دی۔ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے استغاثہ کے گواہ عبدالحنان پر جرح مکمل کی ۔استغاثہ کے گواہ عبدالحنان نے اعتراف کیا کہ دستاویزات براہ راست وصول نہیں کیں۔ دستاویزات پر موجود فارن اینڈ کامن ویلتھ کے تصدیق کنندہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتا ،آف شور کمپنیز سے متعلق دستاویزات فراہم کرنے والے مجاز افسر کو بھی نہیں جانتا میں نے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس سے نوٹرائزیشن کے بعد دستاویزات کی تصدیق کی۔ کسی بھی کمپنی کے آفیسر یا لینڈ رجسٹری کے آفیسر نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی۔ گواہ نے کہا کہ نائنتھ آرڈر آف کنفرمیشن عدالتی ریکارڈ پرموجود ہے نہ ہی اسے تصدیق کے لیے نوٹری پبلک کو بھجوایا ، دستاویزات کی نوٹری تصدیق کرنے والوں کے نام اور تاریخ بھی درج نہیں۔ جرح میں وکیل صفائی خواجہ حارث کی جانب عدالت میں دلائل دیئے گئے کسی قسم کا سرٹیفکیٹ ان دستاویزات کے درست ہونے سے متعلق نہیں دیا گیا۔ سماعت کے دوران شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے روسٹر کو چھو ڑ دیا اور عدالت کو باآواز بلند کہا میرا وارنٹ جاری کرنا ہے تو کر دیں جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے خواجہ صاحب آپ ابھی صحت مند لگ رہے ہیں جرح کریں نہیں تو میں سپریم کورٹ کو خط لکھ دیتا ہوں ۔ خواجہ حارث،نیب پراسیکیوٹراور جج کے درمیان سخت مکالمہ ہوا جس پر خواجہ حارث روسٹرم چھوڑ کر چلے گئے خواجہ حارث نے عدالت کو کہا اگر آپ نے میرا وارنٹ جاری کرنا ہے تو کردیں9سے 12بجے تک یہاں ہوں پھر سپریم کورٹ میں پیش ہوناہے یہ تاریخ نیب حکام اور جج صاحب کے اصرار پر طے ہوئی یہ تاریخ میری مرضی سے طے نہیں ہوئی جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے اصرار کیا دیگر بچ جانیوالے گواہوں کا بیان آج ہونا چاہیے یہ تاریخ خواجہ حارث کی مرضی سے مقرر کی گئی جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے خواجہ صاحب آپ ابھی بھی صحت مند لگ رہے ہیں جرح کریں، جس پر شریف خاندان کے قانونی مشیر نے عدالت کو بتایا کہ میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں جس پر فاضل جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے میں سپریم کورٹ کو خط لکھ دیتا ہوں کہ آپ کو جنرل ایڈجرنمنٹ دے، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیاآپ خط لکھیں ، میری بات نہیں مانی گئی شاید آپ کی مان لیں کچھ کیسز کی نوعیت حساس ہوتی ہے ، سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے ۔ بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 7مارچ تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن