دنیا میں سب سے مشکل مرحلہ اس وقت درپیش اتا ہے جب ایک انسان کو اس وقت اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کرنا پڑ جائے جب کسی معاملے میں اسکی اپنی ذات، رشتہ داریاں یا اسکے وطن کے معاملات آڑے آ رہے ہوں۔ اس سباق میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آجکل جو معاملات چل رہے ہیں اور جو زہر بھارتی میڈیا اْگل رہا ہے اْس تناظر میں مجھے آج بھارتی صحافی کلدیپ نیئر صاحب بہت یاد آ رہے ہیں انکے ساتھ اس ذکر میں اگر اوم پوری اور مہیش بھٹ کو بھول جاؤں تو یہ بھی بہت بڑی زیادتی کے زمرے میں شمار ہو گا۔ یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے دو دہائی قبل بھارت کے مذہبی جنونی معاشرے میں امن کی بات شروع کی جسے وہاں کے میڈیا نے بھی بہت تنقید کا نشانہ بنایا حالانکہ مذکورہ تینوں شخصیات کا کسی نہ کسی طور فنون لطیفہ اور میڈیا سے ہی تعلق تھا۔ اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ ہر محبِ وطن اپنے وطن کے حق میں بولتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیئے لیکن ایسے میں یاد رہے اسکے ساتھ وطن کی محبت اس بات کی بھی متقاضی ہوتی ہے کہ وطن کے حوالے سے اپ جو اقدامات اْٹھا رہے ہیں یا جن اقدامات کی حمایت کرنے جا رہے ہیں کیا وہ واقعتاً اس وطن اور اسکی عوام کیلیئے فائدہ مند ثابت ہونے جا رہے ہیں یا پھر ان اقدامات کا منطقی انجام اس وطن اس دیس کو تباہی کے اس دہانے پر لیکر جانا ہے جسکا سامنا جنگ عظیم دوئم میں جرمنی نے ہٹلر کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے کیا تھا جسے آج بھی جرمن نسل یاد کر کے ماتم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے اسے ہمارے اس خطے برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا المیہ کہیئے کہ ہم دونوں ملکوں کو آزادی دیتے وقت سامراجی قوتوں نے معاملات کو اسطرح ترتیب دیا اور اس مقام پر لیکر جایا گیا جہاں برصغیر پاک و ہند میں صدی کا سب سے بڑا قتل عام اسطرح وقوع پذیر ہوا کہ اسکی بنیاد پر نفرت کی ایک ایسی خلیج وجود میں آئی جو ہر آئے روز جوانی پکڑتی نظر اتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسی سامراجی قوت نے مخصوص حکمت عملی کے تحت دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا ایک ایسا شوشہ چھوڑا جو ساری عمر نفرت کی اس آگ کو مزید ایندھن مہیا کرتے رہے۔ گہرائی سے حالات کا تجزیہ کریں تو دونوں ممالک میں نفرت کے ساتھ ساتھ ایک اور مشترکہ قدر میں بھی اضافہ ہوا اور وہ تھی مذہبی شدت پسندی۔ غیر جانبدرانہ تجزیہ اور تاریخی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ گْو کہ پاکستان کا قیام جیسا کہ اس نعرے سے ظاہر ہوتا ہے " پاکستان کا مطلب کیا ‘ خالصتاً مذہبی بنیاد پر وجود عمل میں آیا لیکن واقعاتی شہادتیں اس امر کی گواہ ہیں کہ اس سارے عمل کی قیادت ایسی شخصیات کے ہاتھوں میں تھی جو زبان سوچ اور کردار کے مسلمان تو تھے لیکن سیاست اور ریاست کے امور میں اْنھوں نے مذہبی تفرقے یا اس بنیاد پر نفرت کی کسی سوچ کو غالب نہیں آنے دیا اور مزے کی بات مذہب کی بنیاد پر قائم اسلامی جماعتوں نے اس سارے عمل میں علیحدہ وطن کے مطالبے کی مخالفت کی جبکہ اسکے برعکس آزادی کے وقت ہندوستان کی تمام قیادت کے عملی کردار اور واقعاتی شہادتوں کا اگر تجزیہ کریں تو حقائق بتاتے ہیں کہ سیکولرازم کا پرچار کرنے والی ان تمام شخصیات ماسوائے مہاتما گاندھی کے دلوں میں مذہبی بنیادوں پر منافرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور جسکا اظہار ہر موڑ پر اْنھوں نے اپنے عمل اور کردار کے ساتھ بھی کیا۔ تاریخی چیلنج ہے کہ 1947ء میں آزادی کے وقت پاکستان میں بننے والی حکومت کے ارباب اختیار میں کسی ایک ایسی شخصیت کی نشاندہی کر دیں جسکا تعلق مذہبی بنیاد پرستی سے جوڑا جا سکے جبکہ اسکے مقابل ہندوستان میں جن لوگوں نے حکومت سنبھالی اس میں نہرو سمیت کوئی ایک ایسا شخص بتا دیں جسکی سوچ مذہبی بنیاد پرستی سے آزاد ہو۔ پاکستان اور ہندوستان کی ستر سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں۔ اس سارے عرصے میں آپکو پاکستان میں عوام کی طرف سے منتخب کوئی ایسی حکومت نہیں ملے گی جسکا تعلق مذہبی بنیادوں پر قائم کسی سیاسی پارٹی سے ہو جبکہ ہندوستان کی تاریخ میں مودی حکومت سمیت کئی ایسی حکومتیں ملتی ہیں جنھوں نے اپنا الیکشن ہی مذہبی منافرت پر جیتا ہے جو اس امر کی واضع دلیل ہے کہ کس ملک کے عوام یا حکومتیں مذہبی جذبات اْبھار کر اس شدت پسندی کو تقویت دینے کا باعث بنی ہیں جسے حرف عام میں دہشتگردی کے القاب سے پکارا جاتا ہے۔ اس سباق میں تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ایک عام شخص سوال کر سکتا ہے جو اہم بھی ہے کہ آپ مودی اور بی جے پی کی کچھ حکومتوں پر جب مذہبی شدت پسندی کا لیبل لگاتے ہیں تو پھر پاکستان میں ضیاالحق کی حکومت کے بارے میں دنیا کے خیال کو واضع کریں۔ کسی بْغض اور ریاکاری کے بغیر تاریخ خود ہی اسکا جواب دیتی ہے کہ اوّل ضیاالحق کی حکومت پاکستان کی عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں تھی اور دوئم اسکے دور حکومت میں جہاد کے نام پر جن اقدامات کو مذہبی شدت پسندی سے جوڑا جاتا ہے انکا سر خیل ضیاالحق نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کے وہ ممالک تھے جو افغانستان میں سویت یونین کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور امریکہ سمیت یہ دوسرے ممالک ہی تھے جنھوں نے نہ صرف یہاں ایسی شدت پسند تنظیموں کا عملی وجود پیدا کیا بلکہ اپنے مفادات کے تحت انکی مالی اور عملی سرپرستی بھی کی۔ اس سے آگے بات انشاء اللہ اگلے کالم میں ہو گی۔