بھارت… لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

بھارت نے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا اور اپنی روایتی مہم جوئی میں الزام پاکستان پر دھر دیا۔ پاکستان دشمن بھارتی میڈیا نے اسے اپنی حیثیت اور قد سے زیادہ اچھالا مگر مودی سرکار نے جو شرمناک چال اپنے بندے مار کر پاکستان کو ملوث کرنے کیلئے چلی وہ خود اس کے گلے پڑ گئی۔ مودی سرکار کو اس ڈرامے سے جتنی ہزیمت، شرمندگی اور جگ ہنسائی اٹھانا پڑی اسکی سفارتی تاریخ میں مثال تو یقیناً نہیں ملے گی، اس سے ہونے والی ایشیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کو جو خوفناک اورعبرتناک نتائج بھگتنا پڑینگے اسکی شدت میں کمی صرف بھارت اپنی جنگی جنونیت کو ختم کرکے اور ہوش کے ناخن لے کر ہی کرسکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے پلوامہ ڈرامے پر ردعمل سے پوری دنیا میں امن پسند قوتوں اور انصاف پسند معاشروں کو معقولیت اور خطہ میں قیام امن کیلئے مذاکرات کرنے، اسے جنگ کے خوفناک شعلوں کے سپرد کرنے سے گریز کرنے کا جو پیغام گیا ہے اسے بھارت میں بھی جینوئن عسکری لیڈر شپ ، عدلیہ کے معزز اراکین، دانشوروں کی بہت بڑی تعداد نے سمجھ لیا اور اسے دل سے قبول بھی کر لیا ہے۔ بھارت کے لوگ اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ وہ مودی کی حکومت کی اس چال کونہ سمجھ سکیں جو اس نے اپنے اقتدار کے تسلسل کیلئے اگلے انتخابات سے پہلے چلی ہے۔ اس کا پاکستان دشمنی کا یہ کارڈ اب اپنا کام کرنیوالا نہیں۔
ایک بھارتی شاعر راحت اندوری نے تواس ڈرامے کے ذریعے سرحدوں پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے گھٹیا، مودی منصوبہ سے بہت پہلے اہل وطن بلکہ پاکستان میں بھی بالخصوص بھارتی ایجنٹوں کیلئے یہ خوبصورت شعر کہہ دیاتھا
سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا
کچھ پتہ کرو چنائو ہے کیا
گویا انتخابات میں اپنی ہار کو یقینی جاننے والے بھارتی حکمران پاکستان دشمنی کا نعرہ لگا کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی ماضی میں جو کوشش کرتے رہے ہیں وہ اب کام نہیں کریگی۔وزیراعظم عمران خاں نے بھارتی ڈرامہ پر جس مدبرانہ اور حوصلہ مندانہ پاکستانی مؤقف کا پہلے اپنی قوم سے خطاب میں اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہوں کو بھارت کی کسی مہم جوئی کا دندان شکن جواب دینے کا بالکل غیرمبہم انداز میں حکم دیا اس پر مسلح افواج کے سربراہوں کے چہروں پرجو غازیانہ چمک نمودار ہوئی تھی اسے مودی سمجھے یانہ سمجھے اسکی عسکری قیادت کو تو سمجھ آ گئی ہے۔اور پھر وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فضائیہ نے بھارت کے دو فائٹر جہاز مار گرائے،ایک پائلٹ کو گرفتار بھی کرلیا،جبکہ گزشتہ روز پاک بحریہ نے پاکستان کی طرف بڑھتی آبدوز کا بروقت سراغ لگاکر اسے بھاگنے پر مجبور کردیا۔
بھارت کے ایک سابق جرنیل جسے وہ کارگل کاہیرو کہتے ہیں اسے عسکری ایوارڈز سے نوازا تھااس نے عمران خاں کی زبان باڈی لینگوئج اور پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کے چہروں سے جو پڑھا ہے اس نے بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر ایک پیشہ ورسپاہی کے طور پر بالکل کھرے کھرے انداز میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے آپکے منہ پر زور دار طمانچہ مارا ہے۔پاک فضائیہ کی طرف سے مار گرائے جانیوالے بھارتی جہاز کے پائلٹ ابھی نندن کی طرح معمول سے بڑی مونچھوں والے جنرل ، گگن دیپ بخشی نے جو جنرل جی ڈی بخشی کے نام سے مشہور ہیں کہا ہے آپکو تو عادت ہے کہ جب کوئی آپکے منہ پر چانٹا مارے تو آپ دوسرا گال آگے کر دیتے ہیں یہ چانٹا ہے آپکے منہ پر کوئی امن مذاکرات کی دعوت نہیں، اپنے غصے پر حقائق کی تلخی کی وجہ سے قابو پاتے ہوئے بھارتی جرنیل جی ڈی بخشی نے کہا پاکستان کے وزیر اعظم نے جو تمہیں مذاکرات کی دعوت دی ہے وہ دراصل تمہیں جموں و کشمیر سے بے دخل کرنے کا پروانہ ہے اس کا سیدھا سادا مطلب ہے نکل جائو کشمیر سے۔ مذاکرات کی میز پر آئو اور کشمیر ہمارے حوالے کر کے چلے جائو، اپنے ہتھیار ڈال دو اس کا کوئی دوسرا مطلب نہیں،تم ہماری طرف پھر رُخ کرو گے تو ہم تمہارا منہ توڑ دینگے۔
بھارت کے اس فوجی جرنیل کے علاوہ اس پلوامہ ڈرامہ پر ایک سابق بھارتی وزیر یشونت سنہا کا تبصرہ اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا کہ ان سے بھارت کے دو معتبر اور معقول ایڈیٹروں نے انٹرویو کیا ۔’نیشنل اینڈ سٹریٹجک افیئرز‘‘ کی ایڈیٹر جیوتی ملہوترا اور ’’دی پرنٹ‘‘ کے ایڈیٹر انچیف شیکر گپتا تھے۔ مسٹر سنہا سے انکے جموں و کشمیر میں مشاہدات، نقطہ نظر اور موجودہ صورتحال پر سوال کیا گیا تو اس بھارتی سیاسی مدبر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے بارے میں بھارت کی ریاست ایک کے بعد دوسری غلطی کر رہی ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کے ایک بہت بڑے اعلیٰ عہدیدار سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جب میں نے اس بہت بڑے سرکاری افسر سے پوچھا جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی پالیسی کیا ہے اور اس سوال کی وضاحت اس طرح کی کہ ہر ریاست کی ایک پالیسی ہوتی ہے اور یہ پالیسی وہاں کی حکومت کا سربراہ چلاتا ہے اور پھر میکاولی سے لیکر مودی تک کئی نام گنے تو سرکاری افسر نے کہا بھارت کی جموں و کشمیر میں یہ پالیسی ہے کہ’’ طاقت کے ذریعے کچل دو ‘‘ ہم طاقت استعمال کر رہے ہیں، باغیوں اور مسلح افراد کو کچلنے کے نام پر نہتے اور معصوم شہریوں کوکچل رہے ہیں۔ اس ریاستی پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد یشونت سنہا نے کہا، میں جموں و کشمیر میں بہت زیادہ گھوما ہوں۔ میں نے ایک بھی جگہ جموں و کشمیر میں اور بالخصوص وادی میں ایسی نہیں دیکھی جہاں کشمیریوں کے دلوں، دماغوں اور آنکھوں میں بھارت کیلئے نفرت نہ ہو، دراصل بھارت نے اپنی یہ پالیسی تسلسل سے چلا کر کشمیریوں کے ساتھ تباہی و بربادی کا سلوک کر کے انہیں غیض و غضب اور انتقام کی اس وادی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور پھر مسٹر سنہا نے کہا اب پلوامہ میں جو کچھ ہوا ہے کیا اس سے کشمیریوں کے دل میں بھارت سے ہمدردی پیدا ہو گی؟ مسز ملہوترا نے اپنے سیاسی مدبر اور سیاستدان کی باتوں سے جو نتیجہ اخذ کیا اسے انتہائی صحافیانہ ہنرمندی سے پوچھا تو کیا ہم جموں و کشمیر کوکھو رہے ہیں۔ مسٹر سنہا کا جواب تھا اب جموں و کشمیر کوکھونے کا سوال نہیں بلکہ ہم کھو چکے ہیں، اور پھر مسٹر سنہا نے یہ کہہ کر مودی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھا دیا کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا تسلط اس لئے ہے کہ وہاں بہت بڑی تعداد میں ہماری افواج موجود ہیں۔ دنیا جانتی ہے یہ جبر کا قبضہ ہے ظلم کا قبضہ ہے اور یہ عارضی قبضہ ہے آج مودی سرکار اپنی فوج وہاں سے نکال کر دیکھ لے اس آزادی کی تحریک کو نتیجہ خیز بننے اورجموں و کشمیر کی آزاد معیشت بننے میں ہفتہ عشرہ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

ای پیپر دی نیشن