کئی بر سوں سے بھارت اور خاص طورپر مودی سرکار اپنے لوگوں کو اس گماں میں مبتلا رکھے ہوئے تھی کہ دورِ حاضر کی واحد سپر طاقت۔امریکہ۔ نے ہما رے خطے میں اسے اپنا لاڈلابنا لیا ہے۔اسے چین کے مقابلے کی فوجی اور اقتصادی قوت بنانے کاا رادہ باندھ لیا ہے۔
بھارت میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل مگر چند ٹھوس واقعات ر ونما ہوئے ہیںجو مذکورہ داستان کو خوش گمانی پر مبنی دکھا رہے ہیں۔ پاک، بھارت فضائیہ کے مابین حالیہ کشیدگی کے دوران جو رائونڈ ہوا اس کے اختتام پر بھارت کا ایک مگ طیارہ پاکستانی حدودکے اندر مارگرایا گیا۔اس کا پائلٹ گرفتار ہوا جسے پاکستان نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کی خاطر رہا کردیا۔مودی اپنے عوام کو یہ تا ثر دینا چاہ رہا تھا کہ گزشتہ بدھ کی رات پاکستان کو میزائلوں کے استعمال کی دھمکی دے کر اس نے اپنے پائلٹ کی رہائی کو ممکن بنایا۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی رہائی سے چند گھنٹے قبل مگر امریکی صدر عالمی میڈیا کے روبروآگیا۔اس نے جنوبی ایشیاء سے ’’اچھی خبر‘‘ آنے کی اُمید دلائی۔یہ اُمید دلاتے ہوئے دُنیا کو یہ بھی بتادیا کہ بھارت کو ’’تیسری قوت‘‘ کی مداخلت سے کشیدگی کو بھرپور جنگ کی جانب دھکیلنے سے روک دیا گیا ہے۔ امریکی مداخلت سے قطع نظر پاک،بھارت فضائیہ کے درمیان ہوئے حالیہ مقابلے کی بدولت یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بغیر بھی پاکستان محض روایتی ہتھیاروں پر انحصار کرتے ہوئے اپنا دفاع یقینی بناسکتا ہے۔بھارت اسے روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے نظر آنے والی ’’برتری‘‘ کی بنیاد پر اپنے تھلے نہیں لگاسکتا۔چین جیسے ممالک کی برابری ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔
پیر کے روز امریکہ کے ایک شہر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ پومپیو نے چند فقرے کہے۔ان کے ذریعے اس تاثر کی تصدیق ہوگئی کہ امریکہ نے پاک،بھارت جنگ کو روکنے میں مؤثر ترین کردار ادا کیا۔اگرچہ یہ کردار کارگل کے بحران کے دنوں کی طرح بہت نمایاں ہوکر ہمارے سامنے نہیں آیا۔وہ جسے خاموش سفارت کاری کہا جاتا ہے اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔وقت گزرنے کے ساتھ مگر یہ سفارت کاری اتنی بھی ’’خاموش‘‘ نظر نہیں آرہی۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی گفتگو میں کشمیر کا ذکر بھی کیا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لئے کچھ کرنے کے اشارے بھی دئیے۔یہ بات بھی کہہ ڈالی کہ مسئلہ کا حل ڈھونڈتے ہوئے فریقین (یعنی پاکستان اور بھارت) ہر شے اپنی خواہشات کے عین مطابق حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی درمیانی راہ ڈھونڈنا ہوگی۔بھارتی میڈیا نے امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کو نظرانداز کیا۔ ہمارے ہاں بھی اس کی گفتگو میں چھپے اشاروں پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔بھارتی سفارت کاروں کو مگر اس بیان سے یقینا خفت محسوس ہوئی ہوگی۔امریکی وزیر خارجہ کا بیان تو جنگل میں مورناچا کی طرح نظر انداز ہوگیا مگر پیر ہی کے روز امریکی صدر نے اپنی کانگریس کو جو خط لکھا ہے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس خط کے ذریعے امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ 60دن گزرجانے کے بعد بھارت سے امریکہ بھیجی کئی مصنوعات پر ڈیوٹی لگادی جائے گی۔
بھارت اپنی سبزیاں،پھل،مچھلی، سمندر سے حاصل ہوئی غذائوں اور دستکاری کی اشیاء امریکہ کو Generalized System of Preferencesوالے نظام کے تحت فروخت کرتا ہے۔عام زبان میں اسے GSPکہا جاتا ہے۔اس کھاتے کے تحت فروخت ہوئی اشیاء سے بھارت امریکہ سے سالانہ پانچ ارب ڈالر سے زائد رقم کمانے کا عادی ہے۔امریکہ کی جانب سے ان اشیاء پر ڈیوٹی عائد ہونے کے بعد مہنگی ہوئی برآمدات کی منڈی سکڑ جائے گی۔امریکی فیصلے کا اثر بھارت میں کاشتکاروں،ملاحوں اور دست کاروں کو شدت سے محسوس ہوگا۔وہ اپنا ووٹ احتجاج کے اظہار کے لئے مودی کے مخالفوں کو دینے کو مائل محسوس کریں گے۔ٹرمپ لیکن America Firstپر ڈٹا ہوا ہے۔ چین سے آئی بے تحاشہ اشیاء کو اس نے ڈیوٹی لگاکر مہنگا کردیا ہے۔مزید اشیاء کو بھی اس کھاتے میں لانے پر مصر ہے۔اس ضمن میں مذاکرات جاری ہیں جن کے کامیاب ہونے کی ٹھوس امید نہیں۔
چین اور امریکہ میں بھارتی امور پر تنازعہ بہت شدت اختیار کرسکتا ہے۔اس کی وجہ سے چین کی معیشت میں کسادبازاری کا رحجان نمایاں ہورہا ہے۔تجارت کے ضمن میں امریکہ مگر جرمنی جیسے پرانے حلیف اور نیٹو کے رکن کو بھی کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔بھارت کے ساتھ اس کی دوستی ’’نئی نئی‘‘ ہے۔اس کے باوجود اسے چند ماہ تک ایران سے تیل درآمدکرنے کے لئے استثناء دیا گیا ہے۔کوشش ہورہی ہے کہ ان مہینوں کے دوران بھارت اپنی ضرورت کا تیل ایران کے بجائے سعودی عرب سے خریدے۔ سعودی عرب اسی باعث بھارت میں خطیر سرمایہ کاری کو بھی تیار ہے۔ سرمایہ کاری کے وعدے نے اسے وہ Leverageبھی دیاجن کی بنا پر سعودی عرب حالیہ پاک -بھارت کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے امریکہ کی مؤثر انداز میں معاونت کرپایا۔عام انتخابات کی جانب بڑھتے ہوئے نریندرمودی کویقینا یکے بعد دیگرے بری خبروں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اسی باعث یہ خدشہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے بھارت میں عام انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف جارحیت کا کوئی بڑا قدم اٹھانے کو مائل ہوسکتا ہے۔ہمیں مسلسل چوکسی کی ضرورت ہے۔