اسلام آباد: پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو سے متعلق مقدمہ بہترین طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ بات وزیراعظم عمران خان کو اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور نے بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔
ہم نیوز کے مطابق وزیراعظم آفس میں دی جانے والی بریفنگ میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کوعالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس کے متعلق دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے دی جانے والی بریفنگ میں اٹارنی جنرل انور منصور سے مختلف قانونی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی سماعت 21 فروری 2019 کو مکمل ہوگئی تھی۔ کیس کا فیصلہ چھ ماہ بعد سنایا جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف نے پاکستانی وکلا کی جانب سے مزید دلائل دیے جانے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے ہمیشہ پڑوسیوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کرائی اور جاسوس بھیجے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے باعث ہزاروں پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔
انور منصور نے دوران سماعت مؤقف اختیار کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کر رہا تھا اور اسے بلوچستان، گوادر، کراچی میں دہشت گردی کرانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ بھارت، پاکستان دشمن ملیشیا کی فنڈنگ اور تربیت کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی منصوبہ بندی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آوروں نے پاکستان میں سینکڑوں افراد کو نشانہ بنایا جب کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف کو آگاہ کیا تھا کہ آرمی پبلک سکول حملے میں 140 معصوم بچوں کو شہید کیا گیا جب کہ آرمی پبلک اسکول پشاور حملے میں بھارت براہ راست ملوث تھا۔انور منصور نے عالمی عدالت کے گوش گزار کیا تھا کہ پاکستان کو اب تک دہشت گردی سے 130 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی وکیل رانا خاور قریشی نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام لگایا ہے جب کہ بھارت نے کئی سوالات کے جوابات ہی نہیں دیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت نے ہمیشہ پروپیگنڈا کیا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ویانا کنویشن کا اطلاق جاسوس کے معاملے پر نہیں ہوتا ہے لیکن پھر بھی ویانا کنویشن کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کا آپشن موجود ہے۔
خاور قریشی نے عالمی عدالت انصاف میں دوران سماعت استفسار کیا تھا کہ بھارت نے کلبھوشن یادیو کی شہریت کا اعتراف نہیں کیا تو قونصلرتک رسائی کا مطالبہ کیسے کرسکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نےعدالت کو نہیں بتایا کہ وہ حسین مبارک پٹیل ہے یا کلبھوشن یادیو ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کی شناخت مصدقہ ہی نہیں ہے تو قونصلر تک رسائی کیسی؟
خاور قریشی نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بھارت کہتا ہے کہ کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا گیا تو اب تک ایران سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے اسے ایران سے نہیں بلوچستان سے گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمپٹی ڈمپٹی کی طرح بھارت بھی جھوٹ کی کمزور دیوار پر بیٹھا ہے۔
عالمی عدالت انصا ف میں خاور قریشی کا کہنا تھا کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ’را‘ نے بلوچستان کو غیرمستحکم کرنا شروع کیا۔ انہوں نے استفسار کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے پاس مسلمان نام سے پاسپورٹ کیوں موجود تھا؟
خاور قریشی کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کی ایران سے گرفتاری کے بعد بھارت نے کیا تحقیقات کیں؟ بھارتی جاسوس کو ایران سے پاکستان اغوا کر کے لانے کے الزام کا کیا ثبوت ہے؟ ایران سے پاکستان کے نو گھنٹے کے سفر کا بھارت کے پاس کیا ثبوت ہے؟کلبھوشن یادیوکو مارچ 2016 میں بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔ کلبھوشن یادیو پر جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات ہیں۔
فوجی عدالت میں کلبھوشن یادیو نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دس اپریل 2017 کو سزائے موت کی توثیق کی تھی۔
کلبھوشن یادیو نے 22 جون 2017 کو سزائے موت کے خلاف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی تھی۔ رحم کی اپیل میں کلبھوشن یادیو نے را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔