قارئین محترم! انڈیا کی ناکامیوں کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ نریندر مودی کے ظلم و ستم کی شب دیجور اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ سپیدہ سحر تاریکیوںکا سینہ چیرتے ہوئے بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔کشمیر کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں پر گزشتہ چھ ماہ سے جاری بدترین کرفیو اور انڈیا کی ظالم فوجوںکا جبرواستبداد ختم ہونے جا رہا ہے۔…؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے
کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق خودارادیت کے اظہار کا وقت قریب آگیا ہے۔ پوری دنیا سے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ نریندر مودی کا مکرہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے واضح ہوچکا ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشوں کا گھنائونا جال جو نریندر مودی نے پھیلایا تھا، تار تار ہوچکا ہے۔ طالبان امریکہ امن معاہدہ پر دستخط ہوگئے ہیں۔ امن معاہدہ کی تفصیلات طے ہوچکی ہیں۔ پاکستان کے خلاف انڈیا جس انداز میں آگے بڑھ رہاتھا، اس انداز میں آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت نیٹو کے تمام اتحادی ممالک امریکہ طالبان امن معاہدہ پر مکمل اتفاق کرچکے ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک امریکہ طالبان بیک ڈور ڈپلومیسی کے مزید گوشے خوش کن انداز میں نکھر کر سامنے آسکتے ہیں۔
حالیہ دنوں وزیراعظم عمران خان کا دورہ قطر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ بھارت بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ امریکہ طالبان امن معاہدے کو کامیاب بنانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز سمیت ’’مخصوص مفادات‘‘ کیلئے رخنہ اندازی کرنے والے بعض گروپوں اور ممالک کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا تھا تاکہ معاہدے کے بعد کسی فریق کی طرف سے بھی کوئی مخصوص قسم کا منفی ردعمل سامنے نہ آسکے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک بہترین پیشرفت ہے۔ افغانستان کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے۔ قبل ازیں اتنی بڑی پیشرفت اور بیک ڈور ڈپلومیسی پر افغانستان میں امن کیلئے اتنی بڑی محنت نہیں کی گئی جتنی محنت گزشتہ ایک سال سے کی جا رہی تھی اور اب اس محنت کے تتمہ کے طور پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ قطر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ بھارت شیڈول تھا جس میں دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادتوں نے بڑی محنت اور بصیرت کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کو ہر صورت میں ممکن بنانے کیلئے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سمیت ’’مخصوص مفادات‘‘ کے علمبردار ممالک اور گروپوں کو زیر کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی اور اب امید کی جا رہی ہے کہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل قیام امن کی کوششیں ضرور کامیابی کا منہ دیکھیں گی۔ اس امن معاہدے سے امن کا عمل آگے بڑھے گا۔ انڈیا بطور خاص افغانستان کی موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا چاہتا تھا، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ نریندر مودی افغانستان میں قیام امن کے پائیدار حل میں رخنہ اندازی اور سازشوں سے ہاتھ کھینچ کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کرے گا لیکن انڈیا کی طرف سے خفیہ سازشوں کے خطرات اور خدشات بہرطور موجود ہیں۔ انڈیا اس سے قبل بھی متعدد کوششوں میں رخنہ اندازی کرچکا ہے اور امن کے راستے میں روڑے اٹکا چکا ہے۔انڈیا افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف سازشوں اور تخریب کاری کیلئے بطور ایکسچینج استعمال کر رہا تھا۔ پاکستان کے خلاف انڈین سازشوں اور تخریب کاری کا نیٹ ورک بھی افغانستان کی سرحدوں کے راستے چلایا جا رہا تھا۔ انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور انڈیا کا بلوچستان کو علیحدہ کرنے کا خطرناک منصوبے چاہ بہار ایران سے ہوتا ہوا افغانستان ایکسچینج سے کنٹرول کیا جا رہاتھا۔
ماضی قریب میں ہماری مسلح افواج اور قومی سلامتی کے ہونہار اور مضبوط اداروں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈیا کے اس خطرناک سازشی نیٹ ورک کا قلع قمع کیا۔ انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کو اس کے پورے نیٹ ورک سمیت رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ یہ خطرناک جاسوس اب بھی پاکستان کی قید میں ہے۔
انڈیا اور اس کے سازشی ادارے گزشتہ بیس سال سے افغانستان میں انسانی خون کی ارزانی کو فروغ دینے میں لگے ہیں۔ ان سازشی اداروں نے افغانستان میں انسانی خون کی کئی ندیاں بہائی ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھی سازشوں اور تخریبی کارروائیوں کیلئے افغانستان کی سرزمین کو انڈیا بطور ہیڈکوارٹر استعمال کر رہا تھا۔ انڈیا نے گزشتہ بیس سالوںمیں افغانستان میں ایسے کام کئے ہیں جیسے اسے مستقل طور پر افغانستان میں ہی رہنا ہے۔
یہ صورتحال مگر اب بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی کی طرف بڑھ چکی ہے۔ امریکہ طالبان امن معاہدہ نے انڈیا کی تمام سازشوں کو ناکام بنا کر اس کی سازشوں کے ہیڈکوارٹر کو زمین بوس کر دیا ہے۔ انڈیا کی پاکستان کے خلاف سازشوں اور تخریبی کارروائیوں کے تمام منصوبے چکنا چور ہوگئے ہیں۔ امریکہ طالبان امن معاہدے کے اثرات پورے خطے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا یر مرتب ہوں گے۔ پوری دنیا کا امن اور معیشت مضبوط ہوگی۔ امریکہ اربوں ڈالر کے سالانہ جنگی اخراجات سے خلاصی حاصل کرسکے گا۔ سی پیک راہداری کی جلد اور پرامن تکمیل بھی ممکن ہوسکے گی۔
نریندر مودی اور انڈین ادارے افغانستان کے مضبوط امن اور سرزمین افغانستان سے ا مریکی فوجوں کے انخلاء کو اپنے سازشی منصوبوں اور بطور خاص مقبوضہ کشمیر پر اپنی اجارہ داری اور جبر و ستم کو جاری رکھنے کیلئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ افغانستان کی صورتحال کے پرامن حل اور امن معاہدے کے بعد امریکی فوجوں کے انخلاء کے براہ راست اثرات انڈیا پر مرتب ہوں گے اور پوری دنیا کی نگاہیں افغان مسئلہ کے حل کے بعد مقبوضہ کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرانے پر ہوں گی اور بالآخر انڈیا کو اقوام عالم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور کشمیر پر قبضہ ختم ہو جائے گا۔
پاکستان کے خلاف انڈیا نے سازشوں کا جو جال پھیلایا تھا، ایف اے ٹی ایف کو انڈیا پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہاتھا، تھوڑا عرصہ قبل سب سے پہلے چین نے اعلان کیا تھا کہ اے ایف ٹی ایف کا پلیٹ فارم کسی ملک کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ چین انڈیا کی سازشی ڈپلومیسی کو سمجھ چکا تھا کہ انڈیا اے ایف ٹی ایف کا غلط استعمال کرکے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانا چاہتا ہے۔ چین کے بعد دیگر کئی ممالک نے بھی انڈین سازش کو سمجھتے ہوئے انڈیا کا آلہ کار بننے سے صاف انکار کر دیا۔ انڈیا نے اے ایف ٹی ایف کے حالیہ اجلاس سے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں لیکن اے ایف ٹی ایف نے واضح طور پر انڈیا کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس سے انڈیا کو بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔