کھلے ہیں پھول، گیا انتظار کا موسم
وہ ساتھ لائے ہیں اپنے بہار کا موسم
جن ملکوں میں درخت بہت زیادہ ہیں,آب و ہوا صاف ستھری ہے اور عوام کے لیے مسائل کم وسائل زیادہ ہیں ان ملکوں کی خزاں بھی بہت حسین ہوتی ہے رنگوں سے بھری چر مر چر مر کرتے خشک پتوں سے سجی گلیاں اور سڑکیں ایک عجیب سا احساس پیدا کرتی ہیں۔ موسم سرما اختتام پذیر ہو چکا ہے اور آج کل بہار ہے ہر طرف خوبصورت پھولوں نے چٹکنا شروع کر دیا ہے۔ اس موسم میں شاعر وادیب،قلم کار مصور گلوکار صدا کار فوٹو گرافر غرض کہ ہر فنکار پر تخلیق کی بہار کا رنگ نظر آتا ہے۔اس موسم میں آپ کے اندر کا موسم بھی بہت اچھا ہوجاتا ہے۔بہار ایک موسم کا نام ہے،بہار احساس کا نام ہے۔بہار ایک دلفریب کیفیت کا نام ہے۔ سارے موسم اندر کے موسم ہوتے ہیں جو کبھی کسی کے ساتھ ملتے ہی نہیں۔ شاید وقت اور عمر اندر باہر کی بہاروں گہنا دیتے ہیں۔ لاہور کی بات کریں تولاہور میںبہار صرف موسم ہی نہیں ایک تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ بہار کا جشن منانے کے لیے لاہوریوںکا اپنا انداز ہے۔ حکومت پنجاب بھی جشن بہاراں کو بھر پور انداز میں منانے کے لیے تیارنظر آرہی ہے ۔ پی ایچ اے کی جانب سے سجائے جانے والے جشن بہاراں میں لاہوریوں کیلئے مختلف تقربیات کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔روایتی کھانوں کے ساتھ میلہ جشن بہاراں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ کھلے آسمان کے نیچے بچھی چارپائیاں،گاؤں جیسا کھلا ڈلا ماحول،رنگ برنگے دیسی کھانے،چاٹی کی ٹھنڈی میٹھی لسی چلتی ہے تو کہیں کوئی بانسری کی مدھر دھن سے دل کے تار چھیڑ تا نظر آتا ہے ۔ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس میلے میں لاہور کے عوام کیلئے مختلف تقریبات کا انتظام کیا جارہا ہے جس میں 23 مارچ کو آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔جشن بہاراں کا افتتاح وزیر اعلی پنجا ب جناب عثمان بزدار نے کیا۔کچھ سال پہلے بہار میں بسنت تہوار بھی منایا جاتا تھا جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے سیاح لاہور کا رخ کرتے تھے لیکن پھر ہمارے کاریگروں نے قاتل ڈور کا استعمال کر کے بہت سے لوگوں کو خوشیاں دینے و الے بسنت تہوار کو بند کروادیا ۔خیر جشن بہاراں میں شریک شہریوں کا کہنا ہے کہ موسم کی دلفریبی نے میلے کا حسن مزید دوبالا کردیا ہے، ایسے تفریحی پروگرام ذہنی و جسمانی سکون کا باعث ہیں۔جہاںمیلے میں باربی کیو، گول گپے، برگر، مکئی کی روٹی اور ساگ سمیت دیگر کھابوں کے اسٹالز لگائے گئے ہیں جہاں شاپنگ کی شوقین خواتین کیلئے ہینڈی کرافٹس موجود ہیں۔ ہر جانے والا پل آنیوالے کی نوید دیتا ہے۔ غم خوشیوں میں بدلتے ہیں۔ خزائیں بہاروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ پر مجھے کیوں لگتا ہے جیسے سارے موسم دل کے موسم ہوتے ہیں۔ کاش کوئی موسم ایسا آئے جو ہم سب کو ایک ساتھ ہنسا دے۔ ایک ساتھ پھولوں سے ہم سب کی جھولیاں بھر جائے۔بہار کا موسم‘ پیار کا موسم‘ گم شدہ چہروں کے دیدار کا موسم‘ تھل‘ بیلے‘ بار کا موسم‘پیلو پکنے کا موسم در اصل وصالِ یار کا موسم بڑے انتظار کے بعد آتا ہے۔
خواجہ غلام فریدؒ نے ’’پیلُو‘‘ کو تکمیلِ عرفان بنا دیا۔عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا فاصلہ بس ’’پیلو پکنے‘‘ کی دیر تک ہے۔ پیلو چننے سے ابتدا ہے۔ سب سنگی ساتھی مل کر چنتے ہیں‘ پیار کی امرتیاں‘ محبت کے’’پیلو‘‘ پیلو چنتے چنتے آنکھیں ملتی ہیں‘ دل ملتے ہیں اور پھر جدائی کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے پیلو ختم ہو جاتی ہیں اور انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ چہروں کی سرخیاں رخصت ہو جاتی ہیں اور انسان ’’ہکّا بکّا‘‘ رہنے لگتا ہے۔ پھر کب آئے پیلو کا موسم، اور یار مل کے پیلو چنیں۔
دنیا اس وقت کرونا وائرس سے خوف زدہ ہے۔ لیکن پاکستان کو موسمیاتی تبدلیوں نے بہت سے پہلے سے اپنے شکنجے میں لینا شروع کیا ہوا ہے ۔گزری خزاں میں بار بار سکول بند کرنے پڑے۔لاہور کی فضا میں سانس لینے والا ہر بندہ روز دو درجن سگریٹ کا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں داخل کر رہا ہے اس کی بڑی وجہ پچھلے کئی سال مناسب تعداد میں درختوں کا نہ لگایا جانا ۔دریاوں میں پانی کا کم ہونا اور کم پانی میں ہر روز صدقے کے نام پر کئی کئی من شاپر بیگز پھینکنا بتائی جارہی ہے۔لاہور کی فضاؤںسے محبت کے گیت سنانے والی کوئل اور درد بھرے نالے سنانے والی بلبل کہیں دور بہت دور جاچکیں ہیں انکی جگہ شہر کی فضا میں سارا دن گرجیں اڑتی نظر آرہی ہیں ۔دعا ہے کہ کسی کی نظر اس طرف پڑے اورراوی کو صدقہ کے نام پہ گندگی کا ڈھیر بنانے والوں کے خلاف بھی کوئی ایکشن لے۔اگر ایسا ہوجائے تو روای کنارے سارا سال بہار کا سماں بندھا رہے ۔ہرصبح کوئی سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ کچھ شعر لکھے اور شام ڈھلتے سائے میں راوی کے پانی میں اپنے پیاروں کا عکس محسوس کرے ۔