مولود کعبہ علی کرم اللہ وجہہ

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 

 
تمام محقق و مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام تلوار کے بجائے اولیائے کرام کے کردار سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا۔اولیائے کرام کے کردار کا سرچشمہ بعد ازنبیؐ شہنشاہ ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ  ہیں جنہیں رسول خدا ؐ نے غدیر خم کے میدان میں تاج ولایت یہ کہہ کر پہنایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جس جس کا میں ؐ مولا ہوں اس کا علیؑ مولاہے (المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓ نے حضرت علی کو مخاطب کرکے کہا اے ابو طالب کے بیٹے !آپ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے (فتح القدیر) شاہ شمس تبریز ؒفرماتے ہیں ۔
شاہ ولایتم علی ؑ،جام شہادتم علی ؑ
عین ہدایتم علی ؑ،راہنمائے انبیاء
 وہ اولیاء اپنے آپ کوغلام علیؓ اور سگ کوئے شیر یزدان علی ؓکہتے ہوئے فخر ومباہات کرتے ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ ’’اس امت مرحومہ میں ولایت کا  باب کھولنے والے حضرت علیؓ ابن ابی طالب ہیں اولیائے امت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علی ؓ کے خاندان امامت سے وابستہ نہ ہو‘‘(التفہیمات الالہیہ)حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں ’’راہ ولایت کے واصلین کے پیشوا سردارعلیؓ ابن ابی طالب ہیں ۔وہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماوی تھے جیسا کہ جسدی پیدائش کے بعدہیں‘‘(مکتوبات مجدد الف ثانی )حضرت علیؓ ابن ابی طا لب کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اسی لئے علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علیؓ مناقب و فضائل حد احصا سے باہر ہیں ایک مقام پر فرمایا کہ تین سو سے زائد آیات علیؓ ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئیں۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا علیؓ  کے جتنے فضائل و مناقب ہیں کسی کے نہیں۔
والی یزداں علی است ،آیت ایمان علی است نکتہ رحمان علی است ،گوش کن و دم مزن (مولاناروم )
فاتح بدر و حنین وخندق و خیبر امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ نے 13رجب المرجب 30عام الفیل کو بیت اللہ میں ورود فرمایا۔تین دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورؐ نے آغوش میں نہ لے لیا نبی ؐ نے علیؓ کو اپنا لعاب دہن چوسایا(سیرت حلبیہ )خواجہ معین الدین چشتی نے آمد علی المر تضیٰ قصیدہ لکھا
روز یکہ بکعبہ مرتضی پیدا شد سبحان اللہ 
درکون و مکاں جلوہ نما پیدا شد صلوات اللہ 
جبریل زآسمان فرود آمد و گفت اے ختم رسلؐ ؐفرزند بخانہ خدا پیدا شد واللہ باللہ 
حضرت علیؓ کے والد ماجد رسول خدؐا کے شفیق و نگہبان چچا ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم اور والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔نجیب الطرفین ہاشمی اس گود میں تشریف آئے جونبی کریمؐ کی پرورش و کفالت کرکے عظمتوں کی معراج پر پہنچ چکی تھی۔مشہور اہلسنت مورخ و عالم علامہ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں اور مستدرک حاکم میں ہے کہ ’’حضرت علیؓ سے پہلے کسی کی خانہ کعبہ میں ولادت نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت ،عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے اور آپ کے احترام کا اظہار ہو۔
  کسے را میسر نہ شد ایں سعادت 
     بکعبہ ولادت بمسجد شہادت
آپ کا نام حضرت ابو طالب نے اسد رکھا والدہ نے حیدر اور سرور کائناتؐ نے آپ کا نام علی رکھا۔ایک دن آپ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ سے اس کے کلہ کو چیر پھینکا ۔ماں نے دیکھاتو فرمایا کہ میرا فرزند حیدر ہے ۔آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے ۔مرتضیٰ مشہور ترین لقب ہے ۔
  حضرت علی رسول ؐکی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں نبیؐ کے ساتھ ساتھ رہے ۔ علیؓ نے عشق رسول اپنےؐ والد گرامی حضرت ابو طا لب سے ورثے میں پایا۔جیسے نبی ؐ کی کفالت حضرت ابو طا لب نے کی تھی ویسے ہی علی ابن ابی طا لب کی پرورش رحمۃ للعالمین و ام المومنین ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبری ٰ نے کی۔یوں علی ابن ابی طا لب زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ کہلانے والی حضرت خدیجہ و خیر البشر محمد مصطفی ؐکے سائے میں پروان چڑھے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں رسول خداؐ مجھے سینے سے چپٹاتے ،اپنے پہلو میں سلاتے تھے ،اپنی خو شبو سنگھاتے تھے ،پہلے  چیز چباتے پھر اس کے لقمے میرے منہ میں دیتے تھے ۔میں نبی کریم ؐ کے پیچھے یوں لگا  رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ‘‘(نہج البلاغہ)یہ اسی تربیت کا فیض تھا کہ جیسے ہی اقرا باسم ربک کی وحی آئی علی ؑنے فوراً نبی کی صدا پر لبیک کہا اور ظاہری دنیا میں بھی مسلم اول کہلائے ۔
مسلم اول شہ مردان  علیؓ
عشق را سرمایہ ٔ ایمان  علیؓ(اقبالؒ)
 علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں’’ حضرت علی ابن ابی طا لب پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے آپ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ ’’کرم اللہ وجہہ ‘‘لکھا جاتا ہے (صواعق محرقہ)
جب نبی کریم ؐ کو و انذ ر عشرتک الاقربین(سرہ شعرائ)کے تحت اپنے رشتہ داروںکو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آنحضور ؐ نے اولاد عبد المطلب کے چالیس افراد کو حضرت ابو طا لب کے گھر بلوایااور فرمایا جو بھی میری اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے کاررسالت میں میری مدد کرے گا وہی میرا بھائی میرا وصی اور وزیر ہوگا۔یہ سن کر کسی نے جواب نہ دیا تو کم سن حضرت علی کھڑے ہوگئے اور فرمایا یا رسول اللہ مجھے آپ کی دعوت قبول ہے اور میں آپ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔آنحضور ؐ نے فرمایا علی تم بیٹھ جاؤ حضور ؐنے دعوت تین مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضرت علیؓ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایااے علی تم میرے بھائی وزیر اور وارث ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ طبری میں ابو رافع سے مروی ہے جب غزوہ احد میں حیدر کرارؑ سے نبی کریم ؐ  نے فرمایا کہ بے شک علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور جبرائیل نے کہا میں آپ دونوں کا تیسرا ہوں اور جب ’ذوالفقار ‘حضرت علی کے واسطے آسمان سے نازل ہوئی اسکی  مدح میں  صحابہ کبارؓ نے جبرئیل  کی یہ صدا سنی  ’لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘(جواں مرد صرف علی ؓ ہے اور تلوار صرف ذوالفقار ہے )۔ 
غزوہ خندق میں علی ابن ابی طا لب جب عمرو ابن عبدود کے مقابلے میں اترے تو رسول اللہ ؐنے فرمایا آج کل کفر کے مقابلے میں کل ایمان جارہا ہے ۔یوم خندق علی ابن ابی طا لب کاعمرو ابن عبدود کا مقابلہ قیامت تک میری امت کے اعمال سے افضل ہے (مدارج النبوۃ) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓنے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا (اے علی ؑ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون ؑ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہاں،  مگرمیرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(صحیح مسلم:جلد سوم،صحیح بخاری ،متفق علیہ)
 حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرمؐ نے انصار ومہاجرین  میں مواخاۃ قائم کی تو حضرت علی ؓ اشک بار آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ ؐکے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ ؐنے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1687 ،مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 708   )
علی ابن ابی طالب کی رسول  اللہؐپر فدا کاری کا اس سے بڑا کیانمونہ ہو گا کہ ہجرت کی شب جب نبی کریم مدینہ روانہ ہوئے تو امین نبی ؐنے اہل مکہ کی امانتوں کا امین علی ابن ابی طا لب کو بنا یا اور علی کو اپنے بستر پر سونے کا کہا حضرت علی نے فقط اتنا پوچھا کہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائے گی ۔آپ ؐ نے فرمایا ہاں ۔یہ سن کر علی نے اسلامی تاریخ میں پہلی بارجبیں زمین پر رکھ کر سجدہ شکر ادا کیا اورحضرت علی ؓ کفار مکہ کے گھیراؤ میں رسول اللہ ؐ کے بستر پر بلا خوف و خطر سوگئے اور سورہ بقرہ آیت 207کے مطابق اللہ کی مرضیاں خرید لیں(طبری، ابن الاثیر) ۔
رسول خدا ؐ نے بحکم خداشہزادی کونین خاتون جنت فاطمہ ز ہراؓکی تزویج حضرت علی سے فرمائی ۔حضرت انس ؓسے مروی ہے ’’رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما تھے اور حضرت علی ؑ سے فرمایایہ جبریل ہے جومجھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہاری (علی)شادی فاطمہ سے کردی ہے اور تمہارے نکاح پر40 ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیااور شجر ہ طوبی سے فرمایا ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو پھر حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے ‘‘  (محب طبری ،ذخائر العقبی)علی ہی وہ ہستی ہیں کہ جب مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام گھروں کے دروازے بند کردیئے گئے تب علی ابن ابی طالب کا دروازہ باقی رہنے دیا گیا(ترمذی ۔حاکم )علی ابن ابی طالب کو ہی رسول کے شانوں پر سوار ہو کر کعبہ کی چھت پر موجود بت توڑے (احمد ۔مستدرک حاکم )
حضرت علیؓ سخی ایسے کہ رات بھر باغ میں مزدوری کی اس سے جو سے پکنے والی روٹیوں کو عین افطار کے وقت سوالی کو دے دیااور تین دن ایسا ہی ہوتا رہا رسول خداؐ علی فاطمہ حسن و حسین تین دن بھوکے رہے جس پر سورہ ہل اتی نازل ہوئی (ریاض النضرۃ)
اے رہنمائے مومناں اللہ مولانا علیؓ توئی سروش غیب داں اللہ مولانا علی( مولانا رو می)
 خاتم الانبیاٗ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا’’علم قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نوحصے علی کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا(حلیۃ اولیا جلد ۱صفحہ 66)  صرف مفکرین نہیں تمام اولیاء نے بھی محبت علی کے ذریعے نبی اور خدا تک پہنچنے کا راستہ بتایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اگر امت مسلمہ میں جذبہ حیدری بیدار ہوجائے تو مسلمان ہر بحران سے نجات پا سکتے ہیں ۔ساینس و ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر پہنچ سکتے ہیں استعمار کی طاقت کے بتوں کو پاش پاش کرسکتے ہیں ۔بقول شاعر مشرق 
دلوں کو مرکز مہرو وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
 اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر

ای پیپر دی نیشن