اگر عورت کا حقوق حاصل کرلینے کا مقصد بڑی کمپنی کے اشتہارات کیلئے خود کو پیش کرنا ہے، ماڈلنگ اورمس ورلڈ کی دْنیا میں اپنے آپ کو منوانا ہے تو ان حقوق کی لڑائی فضول اور بے معنی ہے۔عورت کی آزادی اور بے جا آزادی کیلئے آواز اٹھانا بھی غلط ہے۔ہاں اگر جائز مطالبات کیلئے آواز اْٹھائی جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ عورت کا ستی ہونا غلط ہے۔کم عمری میں شادی کردینا غلط ہے۔وٹے سٹے کی شادیاں کردینا غلط ہے۔انتہائی کم عمری میں ان ننھی کلیوں کی عزتوں کو پامال کردینا غلط ہے اور گھر کے اندر اس کا بے جا استحصال غلط ہے۔اس بات میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی معاشرہ عورت کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی ساکھ کو مضبوط بنائے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔عورت کا معاشرہ میں اتنا ہی کردار اور عزت ہے جتنی کہ مرد کی ہے۔ جس بھی معاشرہ میں عورت کو کمتر سمجھ کر نظر انداز کیا جائے گا وہیں سے عورت کا استحصال شروع ہوجائے گا۔
یہ کاوشیں صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتیں بلکہ دْنیا بھر میں عورت کے حقوق کیلئے نہ صرف آواز اْٹھائی جاتی ہے بلکہ ان کیلئے باقاعدہ تنظیمیں کام بھی کرتی ہیں۔ میں ایشیائی سطح پر اگر جائزہ لوں تو پاکستان میں عورت کے حالات اتنے خراب نہیں جتنے کہ پڑوسی ممالک میںدکھائی دیتے ہیں۔ میری طرح آپ نے بھی یقینا" اْنکے اپنے تیارکردہ ایسے ایسے ڈرامے دیکھے ہوں گے جن میں اْنکے بعض علاقوں کے خاص رسوم ورواج کو دیکھ کر دل لرز جاتا ہے۔ جہاںصحیح معنوں میں عورت کا بری طرح استحصال ہورہا ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں عورت کی شادی گھر کے کسی ایک مرد سے نہیں بلکہ تمام مردوں سے ہوتی ہے۔یہاں ان کے ملکی قوانین اور پولیس بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔آج بھی کئی علاقوں میں بیوہ ہوجانے کے بعد اْسے خود اکو آگ میں جلانا پڑتا ہے آج کے اس دور میں بھی بہت سے علاقوں میں اْس کاذہنی وجسمانی استحصال جائز سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ پاکستان میں جرگہ سسٹم کی جڑیں آج بھی مضبوط ہیں جہاں کسی اور کے جرم کی سزا کسی اور کو بھگتنی پڑتی ہے۔یقینا"کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں ہمارے ہاں بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ ہم8 مارچ کو عورت کا دن تو جوش وخروش سے منا لیتے ہیں لیکن اْن کی بنیادی ضروریات اور انکے تحفظ کیلئے کوئی عملی قانون نافذ کرنے میں آج بھی ناکام ہیں۔ زینب کیس کے بعد کتنی زینب درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ان کی خلاء میں گھورتی معصوم آنکھیں آج بھی انصاف کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ اْنکے پاکیزہ دلوں کیا آہیں اور بددعائیں آج بھی ہمارا پیچھا کرتی ہیں لیکن کیا ارباب اختیار کو ذرا سا بھی خوف ہے کہ وہ قیامت کے دن اللہ کو اس لاپرواہی اور بے انصافی کا کیا جواب دینگے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بھی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح بہت سے اہم چیلنجز عورت کو درپیش ہیں جن میں تعلیم،صحت، روزگار، ماحول، تحفظ اور انصاف جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔عورت کو اگر عملی طور پربااختیار بنانا ہے تو اسکے یہ تمام حقوق پورے کرنا ضروری ہے۔اگر ہم پاکستان کی سطح پر عورت سے جڑے تعلیم صحت اور روزگار کے سرکاری اعدادوشمار دیکھیں تو ہم عالمی اور جنوبی ایشیائی درجہ بندی میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔اگرچہ ہم نے عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پیش کرتے ہوئے کئی عالمی معاہدوں پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ ان دستخط کا مقصد دنیا کو اس بات کی یقین دھانی کروانی ہوتی ہے کہ ہم ریاستی و حکومتی سطح پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کو یقینی بنا کر اْن کو ترقی کے قومی معاہدے میں شامل کرینگے۔عورتوں کی ترقی کے حوالے سے ایک فکری مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ شاید عورتوں کے حق یا تحریک کی بات کرنے کا مقصد کسی عالمی ایجنڈے کی تکمیل ہے یہ خیال بھی سراسر غلط ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا اوردوسرے پلیٹ فارمز سے عورت کے حقوق کے حوالے سے صحیح تصویر کو صحیح رْ خ سے پیش کیا جائے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ معاشرے کو خواتین نے ہی بچا رکھا ہے۔ماں، بیٹی اور بہن کے روپ میں وہ محبت واحترام کی مستحق ہیں۔