انتخابی نظام کی خرابی کا اندازا تو تھا مگر یہ اتنا تعفّن زدہ ہے اس کا اندازہ گزشتہ روز سینیٹ انتخابات میں ہوا جوبحث و مباحثہ کے بہت سے در کھول کراختتام پذیر ہوئے۔ ’پی ڈی ایم‘کے متفقہ اُمید سید یوسف رضا گیلانی حکومتی اُمیدوار حفیظ شیخ کے 164ووٹ کے مقابلے میں 169 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے، اس پر اپوزیشن کی جیت تو ہے ،مگر خاتون نشست پر حکومتی اُمیدوار174ووٹ لیکر کامیاب ہوئیں۔سید یوسف رضا گیلانی کی جیت نے جہاں ایک طرف اپوزیشن کی طرف سے ’خفیہ رائے شماری پر ضرورت سے زیادہ اصرار کی حقیقت بھی کھول کر رکھ دی ،تو وہیں ’کرپٹ پریکٹس‘ نے بھی قلعی کھول دی۔پی ڈی ایم کی تشکیل کو سینیٹ کے انہی انتخابات سے جوڑا گیاتھا ، جب ُپی ڈی ایم‘ نے احتجاجی تحریک کا عندیہ دیا تو یار لوگوں نے تب ہی شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ اپوزیشن ، ’پی ڈی ایم‘ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے مارچ 2021ء میں ہونیوالے انتخابات ملتوی کروانا چاہتی ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کیلئے پیش رفت کو بھی سینیٹ الیکشن سے جوڑا جاتا رہاکہ آئین میں صدارتی نظام کیلئے عوامی ریفرنڈم پارلیمنٹ کی اجازت سے مشروط ہے۔ موجودہ حیثیت میں پارلیمنٹ کبھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی،مگر سینیٹ میں سادہ اکثریت ہونے پر یہ اجازت زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اپوزیشن سینیٹ اجلاس ملتوی کروانے کیلیے سر توڑ کوشش میں تھی۔ اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بظاہر آخری حربے کے طور پر استعمال کرنااسی مقصد کی تکمیل کیلئے تھا۔جسے زرداری کے کہنے پر موخر کیا گیا۔ کیونکہ استعفوں کے فوائد مبہم اور نقصانات واضح تھے، اس میں کسی کو شک شبہ نہیں رہا کہ اپوزیشن اپنے بیانیے میں اس وقت ناکام دکھائی دی جب چار ماہ کے لگ بھگ احتجاجی تحریک کے باوجود حکومت کیلئے مشکلات پیدانہ کر سکی۔ الٹا پی ڈی ایم کی اپنی جگ ہنسائی ہوئی،پی ڈی ایم کی ناکام تحریک کے بعد قوی امکان تھا کہ سینیٹ انتخاب میں حکومتی اتحاد آسانی سے جیت اپنے نام کر لے گا۔ لیکن جب انتخابات سے بہت پہلے حکومتی ذرائع خفیہ رائے شماری کی بجائے ، اوپن بیلٹ کا راگ الاپنے لگے تو ہر کسی کا ماتھا ٹھنکا۔ کہ خفیہ رائے شماری کا سب سے زیادہ فائدہ تو حکومت کو ہونا تھا پھر حکومت اس سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ مبینہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ خفیہ ایجنسیوں نے حکومت کو اطلاع دی کہ اپوزیشن نے حکومتی ارکان سے سودے بازی کر بھی لی ہے۔ تب حکومت نے اوپن بیلٹ کیلئے ریفرنس بھی دائر کیا صدارتی آرڈی نینس بھی جاری کر دیا ، ساتھ ہی قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ سے بھی رجوع کیا ،مگر ان تینوں محاذوں پرحکومت کوناکامی ہوئی۔ان انتخابات میں حکومت کو توقع کیمطابق نشستیں حاصل نہ ہو سکیں۔ سب سے اہم نشست پر جو ہزیمت حکومت کو اُٹھانا پڑی اس کے اثرات وقتی نہیں بلکہ بہت دیر پاہیں۔ ایک تو پی ٹی آئی کو اندازا ہو جانا چاہیے کہ اس نے عوام کے ساتھ جو ہاتھ کیا سو کیا، اسکے اپنے ارکان بھی اس سے ناخوش ہیں۔بہت سے ارکان نے انتخاب سے پہلے ہی عندیہ دیدیا تھا کہ وہ اپنی جماعت کیخلاف ووٹ دینگے، دوسری طرف اسے اپنے ارکان کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو بھی کھنگالنا ہو گا کہ یہ ’’سنھ‘‘ کہاں کہاں سے لگی؟ اس بڑے سیٹ اپ نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیا جس کا اعلان انہوں نے گذشتہ روز قوم سے خطاب میں کیا۔جس میں انہوں نے اپوزیشن سمیت مقتدر حلقوں کو بھی در پردہ پیغام دیا۔ اعتماد کاووٹ لینے میں کامیابی کے باوجود چیئرمین سینیٹ کا انتخاب سر پر ہے۔ جس میں پی ڈی ایم نے یوسف رضاکو امیدوار نامزد کر دیا ہے، جو اپوزیشن کے پلان کا حصہ تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ سینیٹ چیئر مین کا نتخاب،اس نشست سے قدرے آسان ہوگا۔جس میں صرف چند ممبرز کو توڑنا ہوگا۔کیونکہ اپوزیشن کو سینیٹ میں جوعددی برتری حاصل ہے اس بناپر ان کی کامیابی یقینی ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کیلئے مشکلات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے گویا ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں؟