نواز شریف کا تختہ الٹا ئے جانے سے پہلے کی بات ہے ،میرا اپنے بڑے بھائی سے ملنے کراچی جانا ہوا، جنہیں سلطنت شریفیہ کے ایک چیہتے آئی۔جی کے فرمان شاہی کی نافرمانی کی پاداش میں ڈی پی اوشپ سے ہٹا کر سپر نٹنڈنٹ ،سنٹرل جیل کراچی لگا دیا گیاتھا۔ہم شام کو بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے جیل کے اس وقت کے ڈاکٹراور بعدکے سینیٹراور زرداری کے معتمد خاص ڈاکٹر قیوم سومرو سپرنٹندنٹ ہائو س آئے اور پیغام دیا کہ زرداری انہیں یاد کر رہے ہیں ۔آصف علی زردای ان دنوں نواز شریف کے جذبہ انتقام کا شکارہو کر جھوٹے سچے مقدمات میں اپنی جوانی کے قیمتی سال جیل کی سلاخوں کی نذر کر رہے تھے۔بھائی صاحب نے انہیںہمارے باہر گھومنے جانے کے پروگرام کا بتایا۔ سومرو چلے گئے اور کچھ دیر بعد دوبارہ آئے اور کہا کہ زرداری صاحب چاہ رہے ہیں کہ بھا ئی کو لے کرآئیں ذرا گپ شپ ہو جا ئیگی۔بھائی صاحب نے مجھے پوچھاتو میں نے حامی بھر دی ۔ان کی بی کلاس میں داخل ہوئے تو انہوں نے قیدی ہوتے ہوے بھی آگے بڑھ کر اپنی مخصوص مسکراہٹ سے استقبال کیا ۔گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ،میںنے ان پر گھوڑوں کو سیب کھلانے ، اور دور حکو مت میں ناقص کارکردگی جیسے چبھنے والے سوالات کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ میرے پوچھے جانے پر کہ آپ کو اتنا عرصہ جیل میں ہو گیا آپ نے نواز شریف کے ساتھ کوئی بارگیننگ کیوں نہیں کی ۔تو انکا جواب وہ آیا جس کو میں آج تک بھلا نہ پایا۔انہوں نے چند لمحے توقف کیا اور پھر مسکراتے ہوے بولے ـ:شاہ میر !جب میری شادی محترمہ بینظیر بھٹو سے ہوئی تو میرے والد نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آصف !ایک بات پلے باندھ لو ۔تمھاری شادی بینظیر سے ہونے جا رہی ہے تو یہ مت سمجھنا کہ تم پھولوں کی سیج پر جا کہ بیٹھ جا ئو گے۔ یاد رکھو ،یہ راستہ تخت کو بھی جا تا ہے اور تختے کو بھی ؛پھر انہوںنے بتایا کہ انہیں جیل میںنہ صرف جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ ان پر تشدد بھی کرایا گیا ، جج کوتحریری شکایت کرنے پر کہ یہ سب کچھ آئی جی رانا مقبول کی نگرانی میں کیا جاتا ہے ، جج صاحب نے اسکا ثبوت مانگاتوانہوںنے جج کو بتایا کہ جس کمرے میں لے جا کر ان پر تشدد کیا جا تا ہے اسکی ایک دیوار میں شیشہ لگا ہواہے جسکی دوسری طرف رانا مقبول بیٹھا دکھا ئی دیتا ہے۔کمرے کے اندر سفید پینٹ ہوا ہے ۔لہٰذا جج صاحب نے بیلف مقرر کردیا ۔ بیلف کو اپنی Formalities پوری کرنے میں کچھ دیر لگی یا اس کو دیدہ دانستہ دیر لگوائی گئی مگرجب وہ وہاں پہنچا توااس وقت تک اس کمرے کا نقشہ ہی بدل چکا تھا ، اس کے اندر کا رنگ ،سفید تھانہ ہی دیوار کے اندر کوئی شیشہ،کمرے میںوال پیپر لگ چکا تھا ۔یہ واقعہ سن کر جہاں مجھے نواز شریف کی انتقام پرستی میں ذہنی پستی جھلکتی دکھائی دی وہاں زرداری کی قوت برداشت اور بردباری کا اندازہ بھی ہوا۔اور پھرمیں نے ان سے پوچھا کہ آپ جیل میں اپنا وقت کیسے گزارتے ہیں تو پھر ایک متاثر کن جواب آیا :میں سمجھتا ہوں کہIt's a blessing in disguise :میں اپنی ایک ادھوری کتاب مکمل کر رہا ہوں۔روزانہ قرآن پاک کی تلاوت باترجمہ کر تاہوں ۔اورسب سے بڑھ کر یہ کہ میں یہاں رہ کر بہت سے گناہوں سے بچا ہوا ہوں۔ زرداری نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں ۔تو میں نے شوبز سے اپنا ناطہ بتانا مناسب نہ سمجھا۔لہٰذا میں نے وہ بتایا جو میں ایکٹنگ کے علاوہ کرتاتھا اور وہ تھا میرا ڈیپارٹمنٹل سٹور۔یہ سن کر انہوں نے بھا ئی سے مخاطب ہوتے ہوے کہاکہ آپ نے اس لڑکے کو کس کام میں پھنسا دیا ہے،یہ اس کے گھومنے پھرنے کے دن ہیں۔اور پھر مجھ سے پوچھا کہ آپکی شادی تو نہیں ہوی ،میرے نفی میں جواب پر انہوں نے کہا کہ تو پھر تمھارے یہی آزادی کے دن ہیں ۔شادی ہو گئی تو پھر پھنس جائوگے کیونکہ بیوی ،بیوی ہوتی ہے وہ بیشک بینظیر بھٹو ہی کیوں نہ ہو۔اس پر انہوں قہقہ لگایا اور پھر مجھے سنجیدگی سے آفرکی کہ بولو کہاں جانا ہے؟کون سے ملک جانا چاہتے ہو ؟ تمھارا بھائی زرداری جیل میں ہے تو کیا؟تم جہاں کہو گے میں تمھیں اپنے خرچے پر بھجوائوں گا۔میں نے شکریہ ادا کیا ۔وقت نے انگڑائی لی ،حالات نے کروٹ بدلی ،محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوگئیںاور اپنے پیچھے کبھی نہ پر ہونے والا خلاچھوڑ گئیں۔پھرسیاست میں بھونچال آیا،آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گئے ۔وہ نہ صر ف کامیاب ترین صدر کہلائے بلکہ ؛ایک زردای سب پہ بھاری ؛کا ٹائٹل بھی حاصل کیا۔آج جب زرداری شدید بیمار ہیں اور مجھے ان سے کوئی غرض بھی نہیں ، انکے دور اقتدار میں کوئی مفاد حاصل کرنے کے بارے سوچا تک نھیںتو اب کیا غرض ہو سکتی ہے۔ورنہ اس بہتی گنگا میںیار لوگوںنے خوب ہاتھ دھوئے! آج یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جا تی ہے کہ :ایک زرداری سب پہ بھاری کیوں؟ تومعلوم ہوتاہے کہ اس بھاری ہونے کی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔اورسب سے بھاری قیمت اپنی انتہائی پر آسائش ،آزاد زندگی کی قربانی دے کر جیل کی کٹھن زندگی گزارنا اور پھر جیل سے باہر آنے کیلئے کوئی سودے بازی نہ کرناہے۔؛ بھاری؛ ہونے کیلئے زرداری نے اقتدار میں آنے کے بعد انتقامی روایات کو بدلا ،اورپنے ان بد ترین مخالفین جنہوں نے بینظیر بھٹو کے خلاف نہ صرف جھوٹے مقدمات قائم کئے بلکہ انکی شرمناک حد تک کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اورخود بھی انہی کے غیظ و غضب کا شکار ہوکر 11سال جیل میں گزار ے،ان سے بدلہ لینا تو کجا الٹا ان کو گلے لگا لیا۔بہادر وہ نہیں جو طاقت میں آئے تو اپنا انتقام لے بلکہ بہادری یہ ہے کہ طاقت رکھتے ہو ے انتقام کی آگ سے بچا جائے۔بس یہی ہے بھاری ہونے کا راز۔