سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان سمیت تمام ارکان قومی اسمبلی سے کہا تھا کہ وہ انکے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ووٹ دیں۔ تحریک انصاف کے سولہ سترہ ایم این ایز نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔ ان میں سے کئی نے گیلانی صاحب کے ’’اعلیٰ سیاسی کردارواوصاف‘‘ کو مدنظر رکھا ہوگا۔ کچھ نے اپنے ’’ضمیر‘‘ کے مطابق پارٹی امیدوار کے بجائے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار پر ووٹ نچھاور کیا۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ جیت گیا۔ تحریک انصاف کے ارکان نے (ن) لیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔ تحریک انصاف اس عمل کو کرپٹ پریکٹس سے تعبیر کر رہی ہے۔ عمران خان پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر برہم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگ کو بکائو مال کہہ کر آج اعتماد کا ووٹ لینے کے موقع انہیں کھل کرسامنے آنے کو کہا ہے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں الیکشن کمیشن کو بھی اسکی ذمہ داری یاد دلائی جس سے اس نے غماز برتا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کیلئے نوٹس تیار کیاگیا۔ یہ راز کشائی سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد صاحب نے کی تھی۔ ان سے فون پر بات ہوئی۔وہ تحریک انصاف کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔مگر وزیراعظم کی غیر محتاط گفتگو پر شکوہ کناں نظر آئے۔ ان کو فون یہ جاننے کیلئے کیا تھا کہ وزیراعظم کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا طریقہ کار کیا ہوگا تو بتایا گیا کہ وہی جو وزیراعظم کیلئے انتخاب کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے کا ہوتا ہے۔ ہائوس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہائوس میں جتنے بھی لوگ آئیں‘ وزیراعظم کو اعتماد کیلئے 172ارکان کے اعتماد کی ضرورت ہوگی۔ میں کنور صاحب اور وہ میرے ساتھ متفق تھے کہ عمران خان نے جس طرح کچھ لوگوں کو بکائو مال قرار دیا‘ انکے ضمیر تو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاگ گئے تھے۔ انکی سیاسی ’’غیرت‘‘ بھی جاگ گئی تو عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کا شوق مہنگا پڑ سکتا ہے۔ شاید عمران خان کو اپنے کاز کی تکمیل کیلئے سودوزیاں کی زیادہ پروا نہیں۔ وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کیلئے تیار اور ہر صورت کرپٹ لوگوں کے محاسبے کیلئے سرگرم و پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت تو کیا‘ اسمبلی میں نہ رہیں تو بھی کرپٹ لوگوںکاگھیرائو کرتے رہیں گے۔
وزیراعظم کے کہنے پر ہی صدر نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا ہے۔ ایسا آئین کے تحت صدر اسی وقت کہتا ہے جب بادی النظر میں وزیراعظم ایوان زیریں کا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔ عمران خان نے شاید اپوزیشن کے عدم اعتماد لانے کی دھمکیوں کے پیش نظر اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن نے سردست تو اسے ڈرامہ بازی سے تعبیر کیا ہے۔ اپوزیشن تھوڑی سی کوشش کرے تو ان 20 لوگوں میں سے دس بارہ کو سامنے لاکر’’ عدم اعتماد‘‘ کا مقصد حاصل کرسکتی ہے۔ فرض کیجئے وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرپاتے یہ محض فرض ہی نہیں اس کا ایک امکان بھی موجود ہے ایسا ہوتا ہے تو …؟ صدر تحریک انصاف کو وزیراعظم لانے کو کہے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں وہ کس کو بھی سامنے لاسکتے ہیں۔ کئی امیدواروں کی طرف سے امیدوں کے چراغ جلائے گئے ہوں گے؟ مگر یہ دیئے پوری طرح روشن ہونے سے قبل ہی اُس وقت گل ہوگئے جب عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ اپوزیشن بھی امیدوار سامنے لاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں اپوزیشن حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔ تحریک انصاف کے وہ ’’باضمیر ارکان‘‘ اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ انکے ڈی سیٹ ہونے میں ایک عرصہ درکار ہوگا۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے جو گلالئی والے فیصلے کی طرز پر بھی ہوسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کردار متوازن اور ساکھ ترازو کی طرح برقرار ہے۔کل وہ حکومت کی نظر سرخرو اور اپوزیشن کے زیر عتاب تھا۔اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔الیکشن کمیشن کا اپوزیشن کل جلوس نکالتی تھی اب پلکوں پر بِٹھا رہی ہے اور حکومت کو نوٹس مل رہے ہیں۔ اپوزیشن کی اکثریت جن ہاتھوں میں ہے اسکے بڑے قائد وزیراعظم بننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مریم اور مولانا کی دلچسپی اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے انعقاد میں ہے۔ صرف قومی اسمبلی میں نہیں صوبوں میں بھی۔۔۔ـ البتہ پیپلزپارٹی سمندر میں تو کود سکتی ہے‘ سندھ کی حکومت سے دستبردار نہیں ہوگی۔ عمران کی وزارت عظمیٰ کا برقرار رہنا پی پی پی کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔آج دیکھیں پی پی پی کس طرح عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دلانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہ ہوئے تو کل سے بڑا سانحہ ہوگا اور نئی نسل کو نئے جمہوری تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ آج کی ساری صورتحال پر لندن مکانی موگیمبو قہقہے لگا رہا ہوگا جس کا احمقانہ بیانیہ پِٹ گیاہے۔ اسکے شردھالو دھمال ڈالتے ہوئے بیانیے کی کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ عوام کے معتدبہ حصے کی طرف سے وزیراعظم عمران کی تقریرکو جرأت مندانہ اور ہرحال میں اقتدار سے چمٹے رہنے کی نفی کی علامت قرادگیا ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں خصوصی طور پر نوجوانوں کو جگانے کی کوشش کی ہے۔
جاگو پاکستان کے ’’لوگو‘‘ کے تحت ایک تحریک ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی اور سابق مرکزی وزیر قیوم نظامی بھی چلا رہے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر جیالے اور انقلابی ہیں ان کو شیراز الطاف جیسے انرجیٹک نوجوانوں کی معاونت حاصل ہے۔ اس تحریک کا پیغام ملک کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ رکنیت سازی لاکھوں میںہو گئی ہے جس میں تیزی آرہی ہے۔ ایسے انقلابی ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ملک و قوم کا مقدر بدل اور سنور سکتا ہے۔