175ارکان شریک ملکی بقاکی جنگ جاری رہے گی عمران

اسلام آباد (شاہزاد انور فاروقی) وزیراعظم عمران خان نے  کہا ہے کہ وزیراعظم رہوں یا نہ رہوں کرپٹ نظام اور چوروں کے خلاف میری جنگ جاری رہے گی۔ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے جمعہ کی سہ پہر پرائم منسٹرز ہائوس میں تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ دو صورتیں ہیں کہ حکومت میں ہوں یا نہیں ہوں لیکن یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے جو جاری رہے گی۔ انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ سینیٹرز کے انتخاب کے موقع پر جو بد انتظامی ہوئی  وہ فی الحال درگزر کرتا ہوں اور کسی کے خلاف انضباطی کارروائی نہیں ہوگی۔ لیکن میں امید کرتا ہوں کہ اگر یہ غلطی تھی تو دہرائی نہیں جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ  میں نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو بھی نتیجہ نکلے ایک بات طے ہے کہ میں ان ڈاکوؤں کو چھوڑوں گا نہیں۔ یہ ملک لوٹنے والے ہیں۔ مجھے ووٹ نہ مل سکا تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ میری حکومت بنی تو خزانہ خالی تھا۔ ہم نے بڑی محنت سے ملکی معیشت کو درست ڈگر پر ڈالا ہے۔ اڑھائی سال کے دوران بڑے بحران دیکھے ہیں۔ اب لوگوں کو ریلیف دوں گا۔ میری زندگی نشیب و فراز میں گزری ہے لیکن میں ملک لوٹنے والوں کو این آر او دے کر اپنے لئے آرام نہیں لے سکتا۔ مقابلہ قوم کے مجرموں سے ہے۔ میں زندگی میں جب بھی جیتا میرے پائوں زمین پر رہے۔ لیکن سابقہ حکمران لٹیرے اور فرعون بنے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اپنے اتحادیوں کے شکر گزار ہیں کہ وہ سینٹ الیکشن میں میرے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ کل بھی میرے ساتھ ہوں گے۔ آج دل کر رہا ہے کہ اسی جگہ خیمہ لگاکر یہیں سے اسمبلی کا اجلاس ہو۔ کیونکہ میں پیسے بنانے نہیں ایک خاص مقصد اور نظریہ لے کر سیاست اور اقتدار میں آیا۔ اس لئے یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ  مجھے ووٹ دیں۔ میرے پاس چھانگا مانگا نہیں۔ آپ عوام کے نمائندے ہیں عوام نے پی ٹی آئی کو تبدیلی لانے  اور سٹیٹس کو اور باریوں کے مک مکا کے خاتمہ کیلئے ووٹ دیا تھا۔ اب ہم نے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ قبل ازیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کیا اور وزیر اعظم عمران خان کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ پرویز خٹک نے پارلیمانی پارٹی کو اعتماد کے ووٹ کے طریقہ کار پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر ارکان سے کہا گیا کہ آج صبح دس بجے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس دوبارہ پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوگا تاکہ سب پارٹی اور اتحادی باجماعت ایوان میں داخل ہوں اور اپنے قائد عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے کر مخالفین کے عزائم ناکام بنا دیں۔ اجلاس سے قبل وزیر دفاع پرویز خٹک نے ممبران اسمبلی سے رجسٹر پر دستخط لئے جو کہ 175 ممبران کی  شرکت کی تصدیق کرتے ہیں۔

 اسلام آباد (نامہ نگار/ چوہدری شاہد اجمل+ نمائندہ خصوصی) وزیر اعظم عمران خان آج  قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں قرارداد پیش کریں گے کہ یہ ایوان وزیر اعظم عمران خان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتا ہے جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 91کی شق 7کے تحت ضروری ہے۔ عمران خان کو وزیر اعظم برقرار رہنے کیلئے 172ارکان کی حمایت درکار ہے جبکہ ایوان میں حکومتی اتحاد کی تعداد180ہے۔ قومی اسمبلی قواعد کے مطابق وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ" قرارداد"  پر ایوان کی تقسیم کے ذریعے رائے شماری کے تحت لیں گے۔ قومی اسمبلی کا اہم اجلاس آج ہفتہ کو ساڑھے12بجے سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہو گا۔ سپیکر قومی اسمبلی 5 منٹ تک ایوان میں گھنٹیاں بجواتے ہیں تاکہ تمام ارکان کی حاضری یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے بعد ایوان کے تمام دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں تاکہ کوئی رکن باہر جا سکے نہ کوئی باہرسے اندر آئے۔ سپیکر شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد پڑھنے کے بعد ارکان سے کہیں گے کہ ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خواہشمند شمار کنندگان کے پاس ووٹ درج کروا دیں۔ شمارکنندگان کی فہرست میں رکن کے نمبر کے سامنے نشان لگا کر اس کا نام پکارا جائے گا۔ تمام ارکان کے ووٹ درج ہونے کے بعد سپیکر رائے دہی مکمل ہونے کا اعلان کریں گے۔ سیکرٹری اسمبلی ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ سپیکر کے حوالے کر دیں گے۔ سپیکر دوبارہ دو منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ لابیز میں موجود ارکان قومی اسمبلی ہال میں واپس آ جائیں اور پھر سپیکر قومی اسمبلی نتیجے کا اعلان کر دیں گے۔ وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد منظور یا مسترد ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی کے سپیکر صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ بھی کریں گے۔صدر  نے قومی اسمبلی کا اجلاس آئین کے آرٹیکل 53 (1) کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے  طلب کیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ  میں پہلی بار اپنی ہی جماعت کے صدر مملکت نے محسوس کیا ہے کہ قائد ایوان اکثریت کھو چکے ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا۔ پاکستانی پارلیمانی تاریخ میں دوسری بار کوئی وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کریگا۔ اس سے قبل 1993ء سے نواز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ 18اپریل 1993کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ جنہیں سپریم کورٹ نے 26مئی 1993کی سہ پہر بحال کیا اور اگلے ہی دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اس اجلاس کے اختتام پر ایک قرارداد کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف نے اعتماد کا ووٹ لیا۔ اس وقت ایوان کے 210میں سے 123ارکان نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا تھ۔ قومی اسمبلی  کے آج ہفتہ کو ہونے والے اجلاس میں اگر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوگئے تو ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی رولز 38کے تحت صدر  کو لکھیں گے کہ وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، جس کے بعد صدر وزیراعظم کے دوبارہ انتخاب کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو کہیں گے، جس کے بعد قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے سے انحراف کرنے والے پی ٹی آئی کے ارکان پر  آئین کے آرٹیکل 63 الف  کے تحت نااہلیت کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ علاوہ ازیں حکمران اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ ق نے وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے مسلم لیگ ق کے  وفد نے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق نے وزیراعظم کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم آپ کے بااعتماد اتحادی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس یقین دہانی پر وزیراعظم نے مسلم لیگ  ق کے وفد سے اظہار تشکر کیا۔ وزیراعظم عمران خان سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد نے بھی ملاقات کرکے قومی اسمبلی میں حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے ملاقات کرکے انہیں یقین دہانی کروائی کہ ہمارے تمام اراکین قومی اسمبلی آپ کو ووٹ دیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ حکومت کے اتحاد کا حصہ ہیں ہر صورت ساتھ دیں گے۔ وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت پر قیادت سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں سے کیے گئے تمام وعدے پورے کریں گے۔ مزید برآں وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا ہے، اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور  زیادہ مضبوط ہونگے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کرپٹ ٹولہ عوام کی بجائے اپنے مفادات مدنظررکھتا ہے، سینٹ ارکان کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ پیسے کے زور پر آتے ہیں ، شبلی فراز نے کہا کہ پیسے کے بل پر ایوان میں آنے والے اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں ، اپوزیشن  جماعتیں ملک میں چھانگا مانگا کی سیاست چاہتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے عوامی حقوق اور ملکی مفاد کے تحفظ کا علم اٹھایا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا دلیرانہ فیصلہ کیا ہے، اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان اور زیادہ مضبوط ہونگے،اتحادی جماعتیں ہمارے ساتھ ہیں ،  شبلی فراز نے استفسار کیا ہے کہ اب اپوزیشن والے بھاگ کیوں رہے ہیں؟ شبلی فراز نے کہا کہ حکومت اعتماد کا ووٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات جیت کر دکھائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے 2، 3ارکان غیر حاضر تھے، جنہوں نے پہلے ہی نہ آنے کی وجہ بتادی تھی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اتحادی ہر موقع پر ساتھ کھڑے ہوئے، ن لیگ نے یہ بیانیہ پلانٹ کیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں ان کا ٹکٹ بکا جبکہ ن لیگ کے ٹکٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ شبلی فراز نے کہا کہ مریم نواز نے نوٹ کو اپنے ٹکٹ سے تشبیہ دی ہے جبکہ اس وقت تحریک انصاف کا ٹکٹ ہاٹ آئٹم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ کا بیانیہ خود ساختہ ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،  چاہے کسی کا نشان شیر ہو یا جو بھی ہو، لیکن عمل گیڈروں والے ہیں، اب اپوزیشن والے بھاگ کیوں رہے ہیں؟، اعتماد کا ووٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا الیکشن جیت کر دکھائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...