پشاور کی جامع امامیہ مسجد قصہ خوانی بازار میں ہونیوالے خودکش حملے کے شہداء کی تعداد 63 تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس دہشت گردی میں زخمی ہونیوالے 200 سے زائد نمازیوں میں سے بھی بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ جمعۃ المبارک کے روز دہشت گردوں نے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد میں آئے ہوئے لوگوں کو اپنا ہدف بنایا اور پوری مسجد انسانی خون سے رنگین کر دی۔ خودکش دھماکے سے قبل سیاہ لباس میں ملبوس بمبار نے مسجد کے مرکزی دروازے پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کرکے انہیں شہید کیا اور پھر مسجد کے اندر منبر کے سامنے آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے امام مسجد سمیت 57 نمازی موقع پر ہی شہید ہو گئے اور دو سو سے زیادہ نمازی زخمی ہو کر خون میں لت پت پڑے کراہتے نظر آئے۔ دھماکے سے متعدد افراد کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے۔ کے پی کے حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد سیف نے دھماکہ کے خودکش ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق جائے وقوعہ سے اہم شواہد اکٹھے کرلئے ہیں اور پولیس کا سرچ اینڈ سٹرائیک اپریشن جاری ہے۔ پولیس حکام کے بقول اس حملے کے حوالے سے کوئی تھریٹ الرٹ موصول نہیں ہوا تھا۔ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس‘ ریسکیو 1122‘ ایدھی اور دوسری امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں جنہوں نے اس سانحہ میں شہید ہونیوالوں کی لاشیں اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا۔ ہسپتال کے ترجمان کے مطابق ستاون افراد کی لاشیں اور 197 زخمی ہسپتال میں لائے گئے جن میں سے چھ شدید زخمی علاج معالجہ کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ پولیس حکام کے مطابق دھماکہ خیز مواد پانچ سے چھ کلو تھا اور انتہائی مہلک اور خوفناک تھا۔
ملک بھر کے قومی سیاسی اور دینی قائدین نے پشاور کی مسجد میں نماز جمعۃ المبارک کے موقع پر خودکش دھماکے کی صورت میں ہونیوالی دہشت گردی کو انتہائی سفاکانہ اور انسانیت سے عاری قرار دیتے ہوئے اسکی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس دہشت گردی کے پس پردہ تمام ہاتھوں کو بے نقاب کرکے انہیں کیفر کردار کو پہنچانے کا تقاضا کیا ہے۔ تحریک نفاذِ فقۂ جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے اس سانحہ پر تین روزہ سوگ اور آج بروز اتوار ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے جبکہ علامہ ساجد نقوی نے سانحۂ پشاور کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا تقاضا کیا۔ قائد ملتِ جعفریہ آغا حامد موسوی نے کہا کہ ملک میں کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں‘ شیعہ سنی بھائیوں کو متحد ہو کر شیطانی دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس سفاکانہ دہشت گردی کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی جبکہ طالبان ترجمان اور افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر پیغام میں پشاور بم دھماکے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شہریوں اور نمازیوں پر حملے کا کوئی جواز نہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے پشاور دھماکے پر پاکستان کے عوام‘ حکومت اور قیادت سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس وقت جبکہ ملک میں اندرونی اور عالمی تناظر میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ جاری ہے‘ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تیاریوں میں ہے‘ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں موجود ہے‘ ازبک صدر پاکستان میں موجود تھے‘ آئندہ چند روز میں او آئی سی کے مندوبین کی پاکستان آمد ہونیوالی ہے‘ اس ماہ 23 مارچ کو یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت کیلئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان آنے کا شیڈول طے ہو چکا ہے اور اسی ماہ سی پیک فیزٹو کیلئے خطے کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں کا اسلام آباد اکٹھ ہونیوالا ہے‘ پشاور مسجد میں ہونیوالی سفاکانہ دہشت گردی پاکستان میں خوف و ہراس اور عدم استحکام کی فضا ہموار کرکے اسے بیرونی سرمایہ کاروں‘ کرکٹ کے انٹرنیشنل کھلاڑیوں‘ سفارت کاروں اور دوسری اہم غیرملکی شخصیات کیلئے غیرمحفوظ ہونے کا تاثر پھیلانے کی ہی سازش محسوس ہوتی ہے جبکہ بادی النظر میں اس کا مقصد حکومت مخالف سیاست دانوں کے بھی غیرمحفوظ ہونے کا تاثر قائم کرنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس دہشت گردی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جہاں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو جامع انکوائری کی ہدایت کی وہیںانہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ دہشت گرد کہاں سے آئے‘ اس بارے میں ہماری سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس تمام معلومات موجود ہیں۔ شیخ رشید کے بقول پشاور دھماکے میں ملوث تمام دہشت گردوں کی شناخت ہو چکی ہے اور بہت جلد حقائق قوم کے سامنے لائے جائینگے۔ انہوں نے نام لئے بغیر باور کرایا کہ غیرملکی قوتیں پاکستان کا امن برباد کرنا چاہتی ہیں اور پشاور دھماکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش ہے کیونکہ دشمن کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورۂ پاکستان ہضم نہیں ہوا۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کی مسلط کردہ افغان جنگ کے تناظر میں ہی دہشت گردی کا سامنا ہے جس میں ہمارے سکیورٹی افسران اور جوانوں اور بیش قیمت سیاسی شخصیات سمیت ملک کے 80 ہزار کے قریب شہریوں کی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان نے اس خطہ کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا جس کے ردعمل میں بھی ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ امریکہ نے بھی ہمارے کردار پر بداعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے ہماری دھرتی پر ڈرون حملوں سمیت زمینی اور فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح ہمیں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا خمیازہ خود امریکہ کے ہاتھوں بھی بھگتنا پڑا۔ پھر امریکہ نے افغان جنگ سے گلوخلاصی کرانے کیلئے بھی پاکستان سے معاونت حاصل کی جس کی بدولت امریکی فوجیوں اور شہریوں کی افغانستان سے محفوظ واپسی ممکن ہوئی جس کے بعد پاکستان نے افغانستان سمیت اس خطے کے امن و استحکام کیلئے فعال کردار ادا کیا تو اس پر بھی امریکہ کی پیشانی شکن آلود ہوئی جو ہمیں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنانے کے باوجود ہمارے دیرینہ دشمن بھارت کی سرپرستی کرکے اسے ہماری سلامتی سے کھیلنے کیلئے شہ دے رہا تھا۔
اسی تناظر میں بھارت نے افغان جنگ کے دوران افغان دھرتی ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں کیلئے استعمال کرنا شروع کی جس کے تربیت یافتہ دہشت گرد افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتے رہے۔ 16 دسمبر 2014ء کا سانحۂ اے پی ایس پشاور بھی امریکہ بھارت گٹھ جوڑ پر مبنی اسی سازش کا شاخسانہ تھا جس کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے یکجہت ہو کر دہشت گردی کے سدباب کیلئے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے ماتحت سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کا آغاز ہوا اور دہشت گردوں نے اپنی ٹوٹی کمر کے ساتھ پاکستان سے راہِ فرار میں ہی عافیت جانی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی تک پاکستان میں امن و استحکام کی فضا استوار ہو چکی تھی جبکہ طالبان حکومت کی بحالی سے افغانستان میں ایک نئے انسانی بحران نے جنم لیا جس میں امریکہ کا ہی بنیادی کردار ہے‘ تو پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں افغانستان اور بھارت کے ہاتھوں کا ملوث ہونا ثابت شدہ ہے۔
اب پاکستان نے دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے غیرجانبدارانہ پالیسی اختیار کی ہے جسے امریکہ اپنی مخالف پالیسی سے تعبیر کررہا ہے تو پاکستان کو بادی النظر میں اسکی بھی سزا دینے کی ٹھان لی گئی ہے۔ اس کا اصل مقصد خطے کے امن و استحکام کیلئے پاکستان کے فعال کردار کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس تناظر میں پشاور کی مسجد میں گزشتہ روز کا خودکش حملہ سانحۂ اے پی ایس جیسی ہی سازش ہے جس سے عہدہ برأ ہونے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرنا ضروری ہے۔ اس کیلئے تمام تر ذمہ داری قومی سیاسی قیادتوں پر ہی عائد ہوتی ہے اور قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی سلامتی کا سوچیں گے کیونکہ دشمن کی گھنائونی سازشوں کے مقابل ملک کی سلامتی کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
دشمن کی گھنائونی سازش کے تحت پشاور مسجد میں سفاکانہ خودکش حملہ
Mar 06, 2022