معزز قارئین !۔4 مارچ کو، نمازِ جمعہ کے دَوران پشاور کے علاقہ قصہ خوانی بازار کی ’ ’ امامیہ مسجد‘‘ میں خُود کش دھماکے کے نتیجے میں 57 نمازی شہید اور دو سو سے زیادہ زخمی ہوگئے ، جن میں سے متعدد کی حالت نازک ہے ۔ خبروں کے مطابق سیاہ لباس میں ملبوس (سیاہ پوش، دراصل سیاہ کار ) شخص نے پہلے مسجد کے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی اور پھر مسجد کے منبر کے سامنے آ کر خود کو، دھماکے سے اُڑا لیا، دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضاء پھیل گئے ۔ ’’افغان طالبان یا پاکستان طالبان ‘‘ سے پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانیوں کا واسطہ رہا ہے۔ آپکو یاد ہوگا کہ 14 فروری 2014ء کو، لاہور میں 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو سے زیادہ جید علماء و مشائخ کی مولانا سمیع الحق کی صدارت میں منعقدہ ’’علماء و مشائخ کانفرنس‘‘ اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ کانفرنس میں شریک علماء و مشائخ نے کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں ’’فتویٰ‘‘ دے دیا کہ ’’طالبان پاکستان کے بیٹے ہیں۔‘‘
پھر کیا ہُوا؟۔ 2 نومبر 2018 کو ، مولانا سمیع اُلحق راولپنڈی میں ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ ہندوئوں کی متعصب سیاسی جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ کے حامی تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے مولویوں کو کانگریسی مولوی کہا جاتاہے ۔ قائدِ جمعیت علماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) مولانا فضل اُلرحمن ، کے والد ِ مرحوم مولانا مفتی محمود کا یہ بیان کہ ’ خُدا کا شُکر ہے کہ ’’ ہم پاکستان بنانے والوں میں شامل نہیں تھے !‘‘ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اب کیا کِیا جائے کہ ’’ 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے مولانا صاحب شکست کھا گئے تھے ۔
معزز قارئین !۔ کانگریسی مولویوں کے سوا ، تحریک پاکستان میں ہر مسلک کے مسلمانوں نے ، قائداعظمؒ کی قیادت میں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے جدوجہد کی تھی، یہ الگ بات کہ ’’ قائداعظم محمد علی جناحؒ ، قائد ِ ملّت لیاقت علی خان ؒ اور تحریک پاکستان کے دوسرے قائدین کے سوا کئی ایسے فوجی اور جمہوری حکمران آئے ، جن کا نظریۂ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
’’ علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ ! ‘‘
علاّمہ اقبالؒ جب، وکالت کرتے تھے تو، وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد وُکلاء میں تقسیم کردیتے تھے۔گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے شانہ بشانہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک اپنی ہمشیرۂ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو، حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ قوم کی فلاح و بہبود میں سرگرم عمل رہیں ۔ 2 جنوری 1965ء کے ’’صدارتی انتخاب ‘‘ میں (پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر ) ، صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ، جنہیں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامیؒ نے ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا۔
’’ ریاست ِ مدینہ ! ‘‘
معزز قارئین !وزیراعظم عمران خان سے پہلے بھی پاکستان کے کئی صدور اور وزرائے اعظم نے عوام سے یہ وعدہ کِیا تھا کہ وہ پاکستان کو ’’ ریاست ِ مدینہ‘‘ بنا دیں گے ! ‘‘ لیکن، اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’’ پاکستان میں مختلف اوقات میں فوجی آمریت اور بدترین ؔجمہوریت میں عوام کا کچھ بھی بھلا نہیں ہُوا۔ سیاست میں لت پت ؔ ، مذہبی جماعتیں بھی حکمرانوں سے ’’حصہ بقدرِ جثہ / غُصہ ‘‘ ۔ وصول کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قائدین بھی ، حکمرانوں کو یہ نہیں بتاتے کہ ’’ ہجرتِ نبوی کے بعد خُوشحال انصارِ ؔمدینہ نے غریب مہاجروں سے ’’مواخات ‘‘ ( بھائی چارہ ) قائم کر کے اُنہیں اپنی آدھی دولت / جائیداد کا مالک بنا دِیا تھا اور خُلفائے راشدینؓ نے سادگی سے زندگی بسر کی تھی۔
صرف شیعہ تنظیموں کا مسئلہ نہیں !
4 مارچ کو نمازِ جمعہ کے دَوران جس طرح کی دہشت گردی ہُوئی ہے وہ صرف ’’سپریم شیعہ علماء بورڈ ‘‘ کے سرپرست اور تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی یا دوسری شیعہ تنظیموں کے سربراہوں کا مسئلہ نہیں ۔ یہ سبھی سیاستدانوں کا مسئلہ ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’ نہ مَیں شیعہ ہُوں اور نہ ہی سُنی، مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن، ہم سب مسلمان حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں ! ‘‘ ۔ معزز قارئین ! ۔ مَیں نے کئی سال پہلے قائداعظم ؒ کی قومی خدمات اور عظمت بیان کرتے ہُوئے ایک نظم کہی تھی جس کے دو شعر پیش کر رہا ہُوں …
نامِِ محمد مصطفیٰؐ، نامِ ِعلیؓ عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے، حضرت قائداعظمؒ کا نام
جب مُقّدر کُھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
قائدِ ذِی شانؒ اُبھرا، صُورتِ ماہِ تمام!
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ صدرِ پاکستان ، عارف اُلرحمن علوی ، وزیراعظم پاکستان ، جناب عمران خان اور حزب اختلاف کی تقریباً سبھی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے امامیہ مسجد کے شہدا ء اور اُنکے ورثاء سے بڑی ہمدردی کا اظہار کِیا ہے لیکن، اصل کام تو ، پاکستان کی مسلح افواج کو کرنا ہے ۔
’’ اے مادرِ وطن …! ‘‘ 6 ستمبر کو ، پوری دُنیا نے پاکستان کی مسلح افواج کے شہیدوں اور غازیوں کی تب و تابِ جاودانہ کا مظاہرہ دِیکھا۔ جس پر مَیں نے ملّی ترانہ لکھا جسے ہر روز ریڈیو پاکستان سے نشر کِیا جاتا تھا ۔ ترانے کا عنوان ، مطلع اور ایک بند پیش کر رہا ہُوں …
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
زُہرہ نگاروں، سِینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
پھیلے ہُوئے ہیں، ہر سُو، وفائوں کے سِلسلے!
مائوں کی پر خُلوص دُعائوں کے سِلسلے!
مضبوط، پائیدار، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!