علامہ اقبال نے اپنی مثنوی جواب شکوہ میں طبقہء امرا کے عمومی عبادت گریز رویے کی نشاندہی کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
نام لیتا ہے اگرکوئی ہمارا تو غریب
امرا نشہ ء دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے
مگر یہاں صورت حال کچھ اور تھی ۔ ڈی ایچ اے لاہور میں جو زیادہ تر طبقہ ء امرا کے باسیوں کی شہرت رکھتا ہے وہاں سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے ایک روشن ستارے پیر اسرار الحق چشتی نظامی نے علم و معرفت کی ایک دنیا آباد کر رکھی ہے اور ہر سال ان کی طرف سے سلسلہ چشتیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے چار دنوں تک مختلف پروگراموں کے ساتھ روحانی محفلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے چشتیہ فیض کا یہ سلسلہ حضرت نظام الدین اولیا سے حضرت یحیی مدنی حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہان آبادی حضرت نظام الدین اورنگ آبادی سے ہوتا ہوا حضرت خواجہ فخرجہاں اورنگ آبادی تک پہنچا اور ان کے خلفا میں سے تصوف کا کا ایک سلسلہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی حضرت شاہ نیاز بے نیاز اور پھر بزرگان تونسہ شریف سیا ل شریف ضلع سر گودھا اور گولڑا شریف تک پہنچا ۔ چشتیہ فیض رسانی کے حوالے سے ایک سلسلہ حضرت فخر جہاں اورنگ آباد ی سے حضرت خواجہ قیصر میاں دہلوی اور ان سے حضرت خواجہ عارف الدین فخری سے ہوتا ہوا موجودہ سجادہ نشین خواجہ فریدالدین فخری تک پہنچا ہے ۔ حضرت خواجہ قیصر دہلوی کے بیعت یافتہ حضرات میں ایک صاحب نظر شخصیت خواجہ عزیز مظہر کی تھی جنہوں نے اپنی روحانی مصروفیت کے ساتھ رزق حلال کے لئے صحافت کا پیشہ بھی اپنائے رکھا ۔ حضرت خواجہ عزیز مظہر کے بعد روحانیت کے فیض کا یہ سلسلہ اور نیابت خانقاہی ان کے فرزند خواجہ پیر سائیں اسرار الحق چشتی نظامی کے حصے میں آئی۔ وسیع مطالعہ اور باطنی استغراق کی منزلوں میں سے گزرتے ہوئے وہ ایک عرصہ سے ڈی ایچ اے )ڈیفنس( کو مرکز بنا کر خلق خدا کی تربیت میں مصروف ہیں اور لاہور میں تسلسل کے ساتھ 19ویں خواجگان چشت کے عرس کے حوالے سے ایک روح پرور روحانی نشستوں کا باقاعدگی سے انعقاد بھی انہی کی عشق و محبت کا مظہر ہے ۔ گزشتہ ہفتے انہی روحانی محفلوں میں جہاں قرات کی نشست کا منظر نامہ ایسا تھا کہ تلاوت قران پاک کے لئے تنزانیہ کے شہرہ آفاق قاری رجا ایو ب مصر سے زینت القرا ء قاری وجیہہ الدین دیوان اور پاکستان کے عالمی شہرت کے حامل ممتاز قاری سید صداقت علی موجود تھے ۔ ایک نشست جس کی صدارت خواجہ فریدالدین فخری سجادہ نشین درگاہ اورنگ آباد ) انڈیا ( نے کی اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں میر محفل پیر خواجہ اسرار چشتی کے ساتھ ولی عہد درگاہ پا کپتن شریف دیوان احمد مسعود چشتی دیوان عظمت محمود پیر عبدالخالق القادری بھرچونڈی شریف پیر سیدحبیب عرفانی پیر شمیم صابر ی کلس شریف پیر علی گیلانی احمد آباد اور ڈاکٹر راغب نعیمی ) ناظم اعلی جا معہ نعیمیہ( سمیت 350علما کرام اور کئی اہم شخصیات مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھیں ۔خوبصورت آواز میں نور سلطان اور حاجی حافظ وسیم کی نعت خوانی سے معطر اس نشست کے مقررین نے جن میں 19ویںعرس تقریبات اور محفل میلادکے روح رواں اور میزبان خواجہ سائیں اسرار الحق چشتی ڈاکٹر راغب نعیمی قاضی عبدالغفار پیر امین ساجد مفتی محمد رمضان سیالوی ضیا مصطفی سمیت اہم شخصیات شامل تھیںعقیدت مندوں سے بھری تقریب میںاس حقیقت کو عام کرنے پر زور دیا کہ برصغیر پاک وہند اور دیگرایشیائی ممالک میں اسلام کی روشنی پھیلانے میں خواجگان چشتیہ نظامیہ کا بہت بڑا بلکہ مرکزی کردار ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف ایک روحانی مرکز خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری نے نوے لاکھ افرادکوکفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کے نور سے ہمکنار کیااوراہل چشت کی طرف سے اسلام کی خدمت کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس فکر انگیز نشست کے ساتھ ساتھ روح پرور محفل سماع کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں نامی گرامی قوالوں نے سلسلہ ولائت کے سرتاج حضرت علی علیہ السلام کی منقبت اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کے حوالے سے قوالیوں کو حال و قال کی رنگت کے ساتھ ملا کرمحفل میں سماں باندھ دیا ۔ بلا شبہ صوفیا کے حوالے سے ایسی تقاریب بھی ایک طرف عام لوگو خصوصا نوجوانوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور وہیں ان سے پاکستان کا ایک سافٹ امیج بھی ابھرتا ہے جس کی انتہا پسندی اور تشدد سے بھری موجودہ عالمی فضا کو بہتر بنانے کے لئے اور لوگوں کو اسلام کی امن آمیز زندگی کے قریب لانے کے لئے بہت زیادہ ضرورت ہے۔