خواتین کا عالمی دن


قدرت نے عورت کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر وہ اپنی ان صلاحیتوں کا درست استعمال کرے تو بڑے سے بڑا پہاڑ سر کرسکتی ہے۔ عورت کئی روپ میں ہمارے سامنے ہے اور ہر روپ میں اس نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ اگر وہ ماں ہے تو اپنے بچوں کے لیے جنت ہے، وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے کر انھیں قابل انسان بناتی ہے۔عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہے تو رحمت ہے، جو اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی اور ان کا سہارا بنتی ہے۔ اگر بہن کے روپ میں ہے تو محبت کی بہترین مثال ہے۔ بیوی کے روپ میں ہے تو زندگی بھر اپنے شوہر کا ساتھ نبھاتی ہے، ہر سکھ دکھ میں اس کا ساتھ دیتی ہے اور ہر اونچ نیچ میں قدم سے قدم ملاکر چلتی ہے۔ غرضیکہ عورت کا ہر روپ مثالی ہے۔
1908ءمیںامریکا کی گارمنٹس فیکٹری کی ہزاروں خواتین نے کم تنخواہوں، کام کے اوقات اور صنفی امتیاز کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کے دوران احتجاج میں شریک خواتین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور پتھر برسائے گئے۔ اس سانحے کی مذمت کے طور پر28 فروری 1909ءکو سوشل پارٹی آف امریکا کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے بعد امریکا میں پہلی مرتبہ 28فروری کو ’خواتین کا دن‘ منایا گیا۔ دوسری جانب 19 مارچ کو آسٹریا، ڈنمارک، سوئزرلینڈ اور جرمنی میں ’خواتین کا عالمی دن‘ منایا گیا۔اس دن لاکھوں خواتین نے ملازمتوں میں عورتوں کی شمولیت، ووٹ دینے کے حق، کم اجرت اور صنفی امتیاز برتے جانے کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔عورت کی لازوال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرنے اور معاشرے میں انھیں جائز مقام اور مردوں کے برابر حقوق دلوانے کے لیے 1911ءمیں پہلی بار8مارچ کو ’خواتین کا عالمی دن‘ منایا گیا۔ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کی حالت زار کے پیش نظر ہرسال یہ دن مخصوص عنوان سے منسوب کیا جاتا ہے۔
خواتین کی اس جدوجہد میں عام طور سے حکومتوں، کام کی جگہوں، کھیلوں، صحت عامہ، دولت اور میڈیا پر کوریج میں صنفی مساوات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر خواتین کی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کا جشن منا یا جاتا ہے جبکہ صنفی مساوات پر کام کو تیز کرنے کیلئے عملی اقدامات پر بھی تجاویز دی جاتی ہیں۔ اس سال اس دن کا موضوع DigitALL: Innovation and technology for gender equality ہے جس سے مراد خواتین مےں دورِ جدید مےں ہونے والی دیجےٹل ترقی کے بارے آگاہی پیدا کرنا ہے کےونکہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا کے دوران اکثر خواتین لاک ڈاو¿ن کے باعث سماجی اور معاشرتی رابطوں سے کٹ کر رہ گئیں۔ چونکہ وہ آج کی جدید ٹیکنالوجی کے بارے مےں آگاہی نہےں رکھتی تھیںاور بہت سی خواتین کو ڈیجیٹل فورمز تک رسائی حاصل نہیں تھی، لہٰذا اقوام متحدہ ٹیکنالوجی کے چیلنجوں کا جائزہ لے رہی ہے اور ڈیجیٹل دور میں خواتین کی شمولیت اور خواتین کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات کے بارے آگاہی پہنچانا لازم ہے۔ خاص طور پر ایسے پیشوں میں جو قدرتی ماحول پر منحصر ہیں اور جہاں موسمیاتی تنا¶ قدرتی آفات کا سبب بنتا ہے۔ زراعت، پانی، جنگلات اور ماہی پروری ان شعبوں میں شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور خواتین ان شعبوں میں کل وقتی لیبر یا سیکنڈری ورکرز کے طور پر کام کرتی ہیں اور اس کے علاوہ ان کا انحصار قدرتی وسائل پر ہوتا ہے۔ فصلوں کی گرتی ہوئی پیداوار، پانی، ایندھن اور چارے کی کمی، دیہی نقل مکانی، بار بار آنے والی قدرتی آفات، اور غیر متوقع بارشوں کے پیٹرن، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کمیونٹیز خاص طور پر خواتین کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ تیزی سے بدلتے ہوئے منظرنامے اور ان میں صنفی مرکزی دھارے میں شامل صنفی حساس پالیسیوں، صنفی شمولیت کے پروگرام اور صنفی فریم ورک اور قانون سازی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ خواتین کی آواز سنی جائے، ان پر عمل درآمد کی کمی مسلسل نقصانات کو بڑھا رہی ہے اور ترقی میں رکاوٹ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے اردگرد موجود خواتین کی عزت اور ان کا احترام کریں، ساتھ ہی صنفی امتیاز سے بالاتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کریں۔ ترقی کی دوڑ میں جیت کے خواہشمند ملکوں کو خواتین کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات دینا ہوںگے جو ان کا حق ہے۔ تمام شعبہ جات میں تقرری صنفی بنیادوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کرنا ہوگی، ساتھ ہی خواتین کو ہراساں کرنے کے مسئلے پر بھی قابو پانا ہوگا۔ معیشتوں اور معاشروں کی ترقی کے لیے صنفی مساوات ضروری ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان میں خواتین اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ پھر چاہے وہ ملک کے دفاع کی خاطر پاک افواج میں شمولیت ہو یا روزگار کے لیے ٹرک یا گاڑی چلانا۔ اب کوئی ایسا شعبہ نہیںجہاں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی ہو۔ بحیثیت ایک قوم ہم تعصب کا مقابلہ کرنے، خیالات کو وسیع کرنے، حالات کو بہتر بنانے اور خواتین کی کامیابیوں کو منانے کے لیے فعال طور پر کام کرسکتے ہیں۔ مےں امید کرتا ہوں کے اس سال اس دن کو پرتپاک طریقے سے منایا جائے گا اور زندگی کے ہر شعبے مےں عورتوں کی لازوال محنت اور جفاکشی کو خراجِ تحسین پےش کےا جائے گا۔ اگرزندگی کی کسی راہ یا میدان مےں کچھ کٹھن پہلو ہےں تو انھیں پار کرنے مےں ان کا ساتھ نبھایا جائے گا مگر وہےں امید کرتا ہوں کہ کسی صورت گھٹیا اور فحش پوسٹر کارڈ اٹھا کر عورت کی تذلیل نہےں کی جائے گی اور اےسی وےڈیوز نہےں بنیں گی جن کو لے کر آئندہ کئی دن تک سوشل مےڈیا پر گھمسان کی جنگ ہو اور ہم خود ہی عورت کی تذلےل کے مرتکب ہوں۔

ای پیپر دی نیشن