1946ءمیں فلپائن کی آزادی کی دسویں سالگرہ تھی۔ پانچ لاکھ کے قریب آدمی منیلا سے لیوما تا پارک میں یومِ آزادی کے جلسے کے سلسلے میں جمع تھے۔ فلپائن کا صدر میکسے بھی اسٹیج پر موجود تھا۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا،’مجھے اس جلسہ میں امریکا کی نمائندگی کرنا تھی ۔ میری تقریر کرنے کی باری صدر میکسے سے پہلے تھی ۔ میری تقریر کے فوراً بعد جیسے ہی صدر میکسے تقریر کے لیے اٹھا تو آسمانوں پر بادل گرجا اور بارش شروع ہو گئی۔اس کے نائبین فورا ً چھتریاں لے کر آگے بڑھے لیکن اس نے انھیں پرے دھکیل دیا۔وہ تقریر لکھ کر لایا تھا۔ اس کی تقریر کا مسودہ اس کے سامنے پڑا تھالیکن بارش کی وجہ سے وہ تمام کاغذ بھیگ گئے۔ بھیگنے کی وجہ سے کاغذات سے تمام حروف مٹ گئے۔ اب وہ پڑھے نہیں جا سکتے تھے لیکن اس نے کوئی پروا نہ کی اور ساری تقریر فی البدیہہ ہی کر ڈالی۔ مجھے امید تھی کہ ہجوم تتر بتر ہو جائے گا۔ اگرچہ کافی لوگ وہاں سے چلے گئے لیکن ہزاروں لو گ پھر بھی جلسہ گاہ میں موجود رہے۔ ان کی آنکھیں صدر میکسے پر جمی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بارش کو یکسر فراموش کر دیا۔ وہ اس کی آواز کے اتار چڑھاﺅ ، اس کی تقریر کے الفاظ اور اس کی موجودگی میں پوری طرح جذب ہو گئے تھے۔ صدر میکسے کی تقریر ختم کرنے تک ہجوم جلسہ گاہ میں بارش سے بے نیاز کھڑا رہا۔ تقریر ختم ہونے پر ہجوم نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ میرے لیے تقریر سننے کا ایسا تجربہ آج تک حیرت کا باعث بنا رہا ہے ‘۔
رچرڈ نکسن کی کتاب کے مطالعے کے دوران جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو مجھے فوراً اپنے شہر گوجرانوالہ کا اسٹیڈیم یاد آگیاجہاں 27فروری 1970ءکو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے شدید بارش میں گھنٹوں خطاب کیا تھا۔ اس دن صبح ہی سے مطلع ابر آلود تھا۔ لوگ چھتریاں لے کر اسٹیڈیم پہنچے تھے۔ ظاہر ہے کہ سب لوگوں کے پاس چھتریاں نہیں ہو سکتی تھیں۔ رشید اختر نجمی کی کتاب ’بھٹو‘ میں اس جلسے کی تصاویر محفوظ ہیں۔ جلسے کی تصویر میں چھتریاں ہی چھتریاں دکھائی دے رہی ہیںجو لوگوں نے اپنے سروں پر تان رکھی ہیں۔ جلسے کے شروع ہوتے ہی بارش شروع ہو گئی ۔ شہید بھٹو پر چھتری کی اوٹ کی گئی ۔ بھلا بھٹو کو کب گوارا تھا کہ وہ چھتری کے نیچے بارش سے بچا کھڑا رہے اور اس کے محبوب غریب عوام بارش میں بھیگ رہے ہوں۔ بھٹونے چھتری تاننے سے انکار کر دیا اور وہ بارش میں بھیگتے رہے ۔ عوام بھی بارش میں بھیگتے رہے ۔ تقریر بھی جاری رہی ۔ تقریر بھی خاصی لمبی تھی لیکن بھٹو نے تقریر کو مختصر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ۔ بھیگتے ہوئے مجمع سے کوئی شخص اسٹیڈیم سے باہر بھی نہ نکلا۔
فلپائن کے شہر منیلا میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ اکٹھے ہوئے تھے کہ بارش کے باعث مجمع چھٹ گیا لیکن صدر نکسن کے نزدیک یہی بات بڑی حیرت کا باعث ہوئی کہ ہزاروں لوگ پھر بھی کھڑے رہے ۔ کاش نکسن نے میرے شہر کا وہ جلسہ دیکھا ہوتا جہاں شدید بارش میں بھی لوگ منتشر نہ ہوئے ۔ حضرت قائد اعظم کو عام جلسوں میں لوگ عقیدت اور احترام سے سنتے تھے ۔ اگرچہ انگریزی زبان میں کی گئی تقریریں عوام کی سمجھ سے بالا ہوتی تھیں ۔ صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کے خلاف مادرِ ملت فاطمہ جناح صدارتی امیدوار بنیں تو انھیں عوام کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی۔ دوسری جانب صدر ایوب کو اپنے جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے شاعروں اور پیشہ ور مقررین کی خدمات حاصل کرنا پڑی۔ پھر آتے ہیں بھٹو کے جلسوں کی طرف جنھوں نے عوامی اجتماعات کے سارے ریکار ڈتوڑ دیے ۔ لوگ انھیں گھنٹوں سنتے تھے ۔تحریکِ نظامِ مصطفی میں بھی رفیق احمد باجوہ بہت بڑے مقرر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ۔ بھٹو کے خلاف ان کی تقاریر بھی بڑے جوش و خروش سے سنی گئیں۔ ایک اکیلے شخص کی خطابت نے الیکشن دھاندلی کے خلاف تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفی بنا دیا۔ افغان جہاد کے سلسلے میں سنجیدہ تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا بھٹو کو امریکی افغان وار کے سلسلے میں ہٹا کر جنرل ضیاءالحق کو لے آئے تھے ؟ کیا انھیں مجاہدین میں جرا¿ت اور بہادری کی روح پھونکنے کے لیے مذہبی ٹچ کی ضرورت تھی؟ 1986ءمیں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر اجتماعات بے مثال تھے ۔ اتنے لوگ پھر کسی سیاسی رہنما کے استقبال کے لیے نہیں نکلے۔ 2013ءمیں تحریک انصاف کے مینارِ پاکستان کے جلسے نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ آج عمران خان مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر کھڑے ہیں۔ مختصر نوٹس پر جلسہ کرنے کی صلاحیت صرف وہی رکھتے ہیں، باقی جماعتوں کو تردد سے لوگ اکٹھے کرنے پڑتے ہیں۔ عمران خان کے نام پر لوگ خود بخود اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ اب ٹی وی کا زمانہ ہے ۔ لوگوں کو جلسوں کو ٹی وی اسکرین پر دیکھنے کی زیادہ آسانی اور سہولت ہے ۔ پھر بھی وہ لوگ اس کے نام پر بھاگے چلے آتے ہیں۔ لاہور تحریک انصاف کے جلسے میں شدید بارش ہوئی لیکن مینارِ پاکستان کایہ جلسہ بارش شروع ہوتے ختم ہو چکا تھا۔ 2013ءمیں عوام کے جوش و خروش کا وہ عالم تھا کہ اگر جلسہ ختم نہ ہوتا تو لوگوں نے شدید بارش میں بھی منتشر نہیں ہونا تھا۔ غلام حسین پارک جی ٹی روڈ گوجرانوالہ نون لیگ کا ڈویژنل ورکرز کنونشن ہو رہا ہے۔ اسے دیکھ کر کالم نگار کے ذہن میں یہ سارے اجتماعات آئے ۔ اگلے روز اخبارات میں مریم نواز کی تقریرپڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ اس کنونشن میں اہم معاشی ایشو پر بات کرنے کی بجائے صرف عمران خان ہی ڈسکس ہوتا رہا۔ عمران خان سیاستدانوں کو کرپٹ اور مریم نواز گھڑی چور کی تکرار کیے جا رہے ہیں۔