انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاک امریکا 2 روزہ مذاکرات آج (سوموار) سے شروع ہوں گے۔ مذاکرات میں سرحدی سکیورٹی پر بھی گفتگو کی جائے گی۔ امریکا کے قائم مقام کوآرڈینیٹر برائے انسداد دہشت گردی کرسٹوفر لینڈ برگ کی قیادت میں امریکی وفد پاکستان پہنچے گا۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکی انٹرا ایجنسی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر غور کیا جاسکے۔ بے شک امریکا انسداد دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا دعویٰ تواتر سے کررہا ہے لیکن اس کی طرف سے ابھی تک صرف بیانات پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے۔ بھارت کے ایماءپر افغان سرزمین آج بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جہاں سے بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کررہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بھی بھارت ہی کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردوں کی باقیات اور ان کے سہولت کاروں کی بھارتی فنڈنگ کے ٹھوس ثبوت بھی پاکستان ڈوزیئر کی صورت میں اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو کئی بار فراہم کر چکا ہے مگر افسوس نہ اقوام متحدہ نے اس کا نوٹس لیا اور نہ امریکا نے اسے کوئی اہمیت دی جس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور وہ پاکستان کے خلاف ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے جس سے اس کی سلامتی کو نقصان پہنچا سکے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو بھی نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے جس کے دہشت گرد کھلی دھمکی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ امریکا اگر واقعی انسداد دہشت گردی کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے فطری اتحادی بھارت کی خبر لینی چاہیے جس کے ایماءپر خطے کا امن تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ امریکا کو افغانستان کی محرومیاں بھی دور کرنی چاہئیں جسے اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد لاوارث چھوڑ دیا۔ امریکی انخلاءکے بعد وہاں نہ صرف بدترین انسانی المیے نے جنم لیا بلکہ اس کی معیشت بھی دگرگوں ہو گئی۔ افغانستان اپنے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتا ہے اور اپنا رنج مٹانے کے لیے وہ پاکستان میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں کھل کر امریکا کا ساتھ دیا،اپنے سکیورٹی اداروں کے افراد سمیت 80 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانی دی اور معیشت کا بھٹہ الگ بٹھایا جس کا خمیازہ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ پاکستان کی ان قربانیوں کا صلہ دینے کے بجائے امریکا آج بھی اس سے ڈومور کے تقاضے کرتا نظر آتا ہے۔ سوموار کو شروع ہونے والے مذاکرات میں امریکا پر زور دینا چاہیے کہ وہ خطے میں دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے پاکستان کی کھل کر کی مدد کرے اور کولیشن فنڈ کی رقم بحال کرے کیونکہ پاکستان اب بھی انھی دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہے جو امریکا کی وجہ سے پیدا ہوئے۔