ملکی سیاست اس وقت جس انتشار کا شکار ہے اس کی وجہ سے ملک اور عوام دونوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس انتشار کا بڑا سبب یہ ہے کہ پچھلے برس اپریل کے مہینے میں جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو انھوں نے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا جس کا مقصد مقتدر حلقوں کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں اور اگر انھیں اقتدار میں نہ رہنے دیا گیا تو اس نظام کو چلنے نہیں دیں گے۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت ایک حقیقت ہے لیکن اگر وہ خود کو ملک یا نظام کے لیے ناگزیر سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے جس سے انھیں جتنی جلد ممکن ہوسکے جان چھڑا لینی چاہیے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہے۔ خود عمران خان بھی شاید کسی تک اس بات کو سمجھ چکے ہیں اس لیے وہ اب اپنے رویے میں تبدیلی لا رہے ہیں لیکن وہ اپنی بات سے پھر جانے یا یوٹرنز کے حوالے سے ایسی شہرت رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے رویے میں جو تبدیلی آئی ہے اسی کے باعث ہفتے کے روز ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں سب سے بات اور سمجھوتہ کرنے کو تیار ہوں۔ آج جہاں پاکستان کھڑا ہے سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ عمران خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سیاسی استحکام انتخابات کے بعد آئے گا اور پھر معاشی استحکام بھی ہوگا۔ عوامی مینڈیٹ والی حکومت پانچ سال کے لیے آنی چاہیے، عوام میں اعتماد بہت ضروری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوام اور اداروں سب کو متحد ہوکر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ سب کو قرض اتارنے اور ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے قربانی دینی ہوگی۔ عمران خان کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں آمدن بڑھانے اور اخراجات کم کرنے ہیں۔ اداروں کو ٹھیک کرنا ہوگا، سرکار پر بوجھ بننے والے محکموں کو ختم کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ شارٹ کٹ سے کام نہیں چلے گا، تاریخی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ملک کے مسائل کینسر کی طرح ہیں جس کا علاج ڈسپرین سے نہیں ہو سکتا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ سیاستدان سب سے بات کرتا ہے کسی سے کٹی نہیں کرتا، مشکل وقت سے نکلنے کے لیے سب کو متحد ہونا ہوگا۔
ایک جانب چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ سب کچھ کہا تو دوسری طرف سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری ویڈیو پیغام میں اس سے مختلف باتیں کرتے رہے۔ ٹوئٹر پیغام میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے یقین ہے جن تین لوگوں کو نامزد کیا وہی مجھے قتل کرانے کی کوشش میں ملوث ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ہے کہ ملزم نوید کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے وقت پانچ نامعلوم افراد عدالت میں موجود تھے۔ شہباز شریف، ڈرٹی ہیری، رانا ثناءاللہ کے باعث کیس کو کور اپ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تینوں کو خوف ہے کہ عمران خان اقتدار میں نہ آجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب نیب کا کا م صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف کارروائی کرے۔ بیرون ممالک لوگ رشوت نہیں مانگتے جو لوگ ملک کا پیسہ چوری کرتے ہیں ان سے کیسے سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ عوام کا پیسہ چوری کرنے پر کیسے معاف کر دوں۔
ادھر، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ رو، چیخو یا پیٹو، تم سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ تمھیں سمجھوتہ نہیں، این آر او چاہیے۔ گھڑی چور فارن ایجنٹ سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ جنھوں نے رجیم ہٹائی، جنھوں نے امپورٹڈ حکومت بنائی، جنھوں نے تم پر حملہ کرایا، سب سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو؟ جنھیں میرجعفر، میر صادق کہا، سب کو معاف کرنے کو تیار ہو؟ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ منتیں این آر او کے لیے ہورہی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹوئٹر پر اپنے بیان میں عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاید باجوہ کے کورٹ مارشل سے متعلق بیان کا حوالہ دیتے ہوئے شاعرانہ انداز میں لکھا کہ پرانے آرمی چیف کا کورٹ مارشل چاہتا ہوں، نئے آرمی چیف سے ملاقات چاہتا ہوں، میری دو نمبری دیکھ کیا چاہتا ہوں۔
ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ عمران خان اگر واقعی حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں سے بات کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے رویے سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کی خاطر اپنی انا قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح حکمران اتحاد میں شامل افراد کو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں تلخ باتیں چھوڑ کر سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ سیاسی قیادت جب تک متحد ہو کر ملک کے مسائل پر غور نہیں کرے گی تب تک ان مسائل کے حل ہونے کی راہ نہیں نکل سکے گی۔