پیر، 13 شعبان المعظم، 1444ھ، 6 مارچ 2023ئ


2020ءکے پبلک سروس کمشن کے امتحان میں بے ضابطگیاں۔ سندھ ہائی کورٹ کا 2 ماہ میں دوبارہ کرانے کا حکم 
سندھ میں حکومت کی گڈ گورننس کو تو لگتا ہے وہاں کے حکمرانوں نے ازخود گڈبائی کہہ دیا ہے۔ جبھی تو وہاں سے ایسی ایسی خبریں ملتی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جو سیاسی جماعت وہاں گزشتہ دو تین دہائیوں سے برسراقتدار ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی صوبے پر مکمل گرفت ہوتی اور وہ کسی کو پر مارنے نہ دیتی۔ مگر وہاں تو قدم قدم پر جرائم پَر پھیلائے نظر آتے ہیں۔ پبلک سروس کمشن کے امتحانات پر لوگوں کو اعتماد ہوتا ہے کہ اس طرح بہت سے متوسط طبقے کے نوجوان بھی اعلیٰ تعلیم کی بدولت محنت سے یہ امتحان پاس کر کے اچھے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ مگر دیکھ لیں سندھ میں یہ امتحان بھی سیاسی اور سفارشی داﺅ پیچ کی نشتر زنی سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ کیس کی سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 2020ءمیں ہونے والے کمشن کے امتحانات کے نتائج میں ردو بدل اور نمبروں میں اضافے جیسے بدترین عمل کی وجہ سےانہیں کالعدم قرار دیتے ہوئے 2 ماہ میں دوبارہ کرانے کا حکم دیا ہے۔ ایسا تو پرائمری یا مڈل سکول تک کے امتحانات میں ہوتا ہے جہاں اساتذہ اپنے ہاں ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو یا یار دوست اساتذہ اور رشتہ داروں کے کہنے پر نالائق طلبہ کے نمبر بڑھا کر انہیں پاس کر دیتے ہیں۔ کئی تو خالی پیپر دینے والوں کو اچھے نمبروں سے پاس قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ جو اعلیٰ درجے کے امتحان میں گھپلا ہوا ہے، اس کے ذمہ داروں کو تو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے نمبروں اور نتائج میں ردو بدل کیا، انہیں، جنہوں نے کروایا ،ان سب کو قانون کے شکنجے میں کسنا ضروری ہے اور یہاں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
منڈی بہاﺅالدین میں تاجر کی شادی پر نوٹوں کی برسات 
خوشی منانے کی کوئی حد نہیں ہوتی مگر عقل کا تو ایک عدد ٹھکانہ ہوتا ہے۔ اب کیا کیا جائے کہ جب پیسہ آتا ہے تو عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور خوشی بدمستی میں بدل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں شادیوں پر بے دردی سے نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ رقم کسی مستحق کو دی جائے تو وہ کوئی کام کاج کر کے اپنی اور اپنے گھر کی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔ مگر کیا کریں دولت کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے وہ لوگ جو پیسے والے ہوتے ہیں دینے کی بجائے لٹانے پر ز یادہ آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ کشمیری کی ایک مثال ہے ”چھس تہ کرئی کیہ“ یعنی جب ہے تو کیا کروں۔ اب گزشتہ دنوں منڈی بہاﺅالدین میں ایک تاجر کی شادی کی تقریب کی ویڈیو وائرل ہوئی، سب نے دیکھا کہ کس طرح چھت سے کئی بندے نوٹوں کی گڈیاں کھول کر ہوا میں لہراتے ہوئے نیچے جمع لوگوں پر پھینک رہے تھے۔ جو وہ لوٹ رہے تھے۔ کیا یہ پیسے والے طبقے کی طرف سے غریبوں کی تذلیل نہیں۔ تاجر برادری جس طرح دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ کر پیسے جمع کرتی ہے۔ اس کا بھی سب کو علم ہے لہٰذا ان کو شاید پیسے لٹاتے ہوئے مزہ آ رہا ہو گا۔ جب دل نہیں بھرا تو موبائل فونز اور پیک شدہ سوٹ بھی نچھاور کیے۔ لوٹنے والے بھی کمال کے کائیاں نکلے، وہ کبوتر بازی والے جال اٹھا لائے تاکہ خود زیادہ سے زیادہ لوٹیں دوسروں کو کچھ نہ ملے۔ کون کہتا ہے ہمارے ملک میں غربت ہے۔ یہاں غربت نہیں بد ترین استحصالی طبقاتی تقسیم ہے جس میں پیسہ والا امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے تو شادیوں میں ڈالرز، پاﺅنڈز اور کئی ارب پتی تو پلاٹوں کے کاغذات تک نچھاور کرتے ہیں۔ یہ ان نے چونچلے ہیں اور غریب ماں باپ صرف دعائیں اور آنسو نچھاور کر کے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ کوئی ان کی دستگیری نہیں کرتا۔
٭٭٭٭٭
لاہور کے منچلوں کی طرف سے بسنت کے اعلان پر پولیس ہائی الرٹ 
خدا جانے یہ باسی کڑی میں ابال کیسے اورکیوں آ جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب بسنت کی رت بدل چکی۔ کھیتوں میں پھیلی سرسوں اب اپنے پیلے پھولوں کی بہار سمیت ساگ کی شکل میں مارکیٹ اور گھروں میں پہنچ چکی ہے۔ لوگ سرسوں کاساگ دیسی مکھن کا تڑکا لگا کر گندم، باجرے اور مکئی کی روٹی کے ساتھ کھا کر ڈکاریں مار چکے ہیں۔ وہ جو پہلے والی بسنت بہار تھی جس کے لیے لاہور دنیا میں مشہور تھا۔ اب برسوں ہوئے یہ لاہور والوں سے روٹھ کر دوردراز کے علاقوں میں ڈیرے ڈال چکی ہے۔ چند روز پہلے امرتسر اور گزشتہ روز سعودی عرب کے شہر دمام میں بسنت فیسٹیول منایا گیا۔ لوگوں نے پتنگ بازی کی۔ ویسے تو کوئٹہ اور کراچی میں بھی شوق سے گزشتہ ہفتے بسنت منائی گئی۔ یہ سب اس لیے ممکن ہے کہ وہاں ابھی تک قاتل دھاتی اور کیمیکل والی ڈور کا رواج نہیں ہے۔ اس قاتل ڈور کی وجہ سے کئی بچے اور بڑے خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس قاتل ڈور کو تیار کرنے اور استعمال کرنے والے بدبختوں کی وجہ سے بسنت خونی کھیل یا تہوار بن گیا، جس کے بعد پنجاب میں اس پر سختی سے پابندی لگائی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ساری سخت پابندی صرف لاہور تک محدود ہے۔ باقی شہروں میں وہی آتش بازی، ہوائی فائرنگ عام ہے۔ بہرحال غلط کام کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اسی لیے گزشتہ روز جیسے ہی اطلاع ملی کہ لاہور میں کچھ سر پھرے بسنت منانے کا سوچ رہے ہیں، پولیس فوری طور پر ایکشن میں آئی اور ان کی سخت چیکنگ کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا اور دل کے ارمان آنسوﺅں میں بہہ گئے، پتنگ بازی کا شوق رکھنے والے دیکھتے رہ گئے، یوں بوکاٹا کا شور برپا نہ ہو سکا۔ 
٭٭٭٭٭
خالصتان تحریک سے خوفزدہ مودی سرکار نے بھارتی پنجاب میں گورنر راج کی سفارش کر دی
”دبے گی کب تلک آوازِ آدم“۔ کہاں کہاں بھارتی ہندوتوا کے حامی اور انتہا پسندی کے پیروکار اپنے حقوق کے لیے بلند ہونے والی آواز کو گولیوں کی ترتراہٹ سے توپوں کے دہانے کھول کر خاموش کراتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 75 برسوں سے تمام ظالمانہ حربے استعمال کرنے کے باوجود بھارت نے دیکھ لیا، کیا ہوا۔ آج بھی وہاں بھارت سے آزادی کی تحریک عروج پر ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ 9 لاکھ فوج وہاں قتل عام میں مصروف ہے مگر ”جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی“ کے مصداق آج بھی وہاں قدم قدم پر لہو کےنذرانہ پیش کیا جا رہا ہے۔ صرف کشمیر ہی کیا، میزورام، ناگاہ لینڈ، تریپورہ، جھارکھنڈ، آسام اور مشرقی پنجاب میں بھارت سے علیحدگی کی تحریکیں آئے روز اپنے جوانوں کی جانیں نچھاور کرکے آزادی کی لو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مشرقی پنجاب میں 1984ءمیں سنت بھنڈرانوالہ کی خالصتان تحریک میں شہادت، گولڈن ٹمپل کی تباہی اور 4 ہزار سکھوں کی موت نے اسے جرا¿توں کی داستان بنا دیا جس کی وجہ سے اندرا گاندھی سکھ گارڈز کے ہاتھو ں قتل ہوئی۔ جواب میں پورے بھارت میں سکھوں کو چن چن کر ہندوﺅں نے قتل کیا، ان کی املاک لوٹی۔ مگر یہ آگ سرد نہ ہوئی۔ آج کل مشرقی پنجاب میں بھائی امرت پال نے خالصتان کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے اور ہزاروں سکھ ان کے اردگرد جمع ہیں۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ بیرون ملک آباد لاکھوں سکھوں کی حمایت ان کے ساتھ ہے۔ اس سے خوفزدہ ہو کر اب بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ سکھوں کی خالصتان تحریک کو بے رحمی سے کچل کر ایک بار پھر 1984ءکی یاد تازہ کر دے۔مگر :
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
 ٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن