فریب سود و زیاں …حیدر عباس کلیال
haiderabbasraja556@gmail.com
آئین 1973 اپنے نفاذ کے بعد سے مسلسل ترامیم کی زد میں ہے اب تک اس میں پچیس ترامیم ہو چکی ہیں ہر ترمیم کے اپنے فوائد و نقصانات رہے ہوں گے لیکن ان ترامیم میں سے اٹھارویں ترمیم جو 2010ئ میں کئی گئی بہت اہمیت کی حامل ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں یہ ترمیم وفاقیت کی طرف اہم سنگ میل ہے اس کی اکثر شقیں صوبائی خودمختاری اور شخصی آزادی کی ضامن ہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی مالی معاملات میں صوبوں کو شتر بے مہار آزادی ہی پاکستان کے موجودہ مالی و معاشی بحران کی بنیاد ثابت ہوئی مجموعی طور پر اس ترمیم کے ذریعے آئین کی 102 شقوں میں رد و بدل کی گئی لیکن اصل معاملہ صوبائی خودمختاری تھا جو بہت قابل توجہ تھا لیکن بدقسمتی سے اس معاملے پہ اس معیار کی جانچ پرکھ ہوئی نہ باریک بینی سے اس کے مضمرات کا جائزہ لیا گیا۔ مرکز کی دو بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی بقا ہی صوبائی خودمختاری کے نعرے میں تھی جبکہ مسلم لیگ ن کو دو بار سے زائد وزیراعظم نہ بن سکنے والی شق کے خاتمے سے دلچسپی تھی تاکہ نواز شریف کے سہہ بارہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوسکے لہذا وہ ہر کڑوا گھونٹ پینے کو تیار تھے بہر حال یہ انتہائی اہم لیکن تشویشناک ترمیم بلا حیل و حجت دونوں ایوانوں سے منظور ہوگئی فطری طور پر صوبوں کی جانب سے بہت خوشی کا اظہار کیا گیا لیکن حسب توقع مالی معاملات پہ وفاق کی گرفت کمزور پڑتی گئی صوبوں کو ریونیو جنریٹ کرنے کی اجازت اور براہ راست قرض حاصل کرنے کے اختیار جیسے حقوق حاصل ہوگئے اس کے علاوہ ریالٹی ایکسائز ڈیوٹی ان لینڈ ٹیکسز لیوی قدرتی وسائل وغیرہ کے معاملات میں وفاق صوبوں کا محتاج ہو گیا جبکہ قرض کی تمام ادائیگی تجارتی ایل سیز اور درآمدات کے زرمبادلہ کے بلوں اور دفاعی، سفارتی اخراجات سمیت لاتعداد ادائیگیوں کا بوجھ وفاق کے سر ہی رہا جس کا فطری نتیجہ وفاق کا مالی نظام کمزور ہوتے ہوتے ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہونا ہی ہو سکتا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور خودمختاری کے نام پہ مرکز کو بعض معاملات میں کلی اور بعض میں جزوی طور پر بے دست و پا کر دیا گیا بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مرکز کا معاشی گلہ گھونٹ دیا گیا۔ مجھے آئینی ماہر ہونے کا کوئی دعویٰ ہے نہ ہی آئینی ترامیم پہ دسترس کا لیکن قانون کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے یہ سوال ضرور ذہن میں ابلتا رہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت مالیات، تعلیم ، صحت قدرتی وسائل توانائی برقیات وغیرہ کے کنٹرول کی جو ذمہ داری صوبوں کو سونپی گئی کیا وہ اسے نبھانے کے اہل تھے جواب یقیناً نفی میں ہے پاکستان ہی کیا کسی بھی ترقی یافتہ ترین ملک میں صوبے یا انتظامی اکائیاں یہ بھاری بوجھ نہ اٹھا سکتے۔ معروف معاشی ماہر اور ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے سب سے پہلے اس ترمیم کے نقصانات و مضمرات پہ قلم زنی کرتے ہوئے شدید تنقید کی بعد ازاں مختلف بین الاقوامی تجزیاتی اداروں نے بھی اس ترمیم کو تباہ کن قرار دیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت سترہ وفاقی وزارتیں اور ڈویڑنز ان کے تحت چلنے والے 174 پراجیکٹ سو سے زائد ذیلی تنظیمیں صوبوں کے تحت آنے کے باعث ان پہ مرکز کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور مرکز کی آمدن میں کمی واقع ہوئی جس کا شاخسانہ ہے کہ آج مرکز تمام مالی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ہونے میں ناکام نظر آتا ہے جبکہ صوبوں کے مالی معاملات وفاق سے کافی بہتر ہیں جس کا براہِ راست نتیجہ درآمدی و برآمدی بل میں اربوں ڈالر کی تفاوت ہے۔اس ترمیم کے تحت قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے حوالے سے بھی سخت پابندی ہے کہ سابقہ ایوارڈ سے کم رقم نہیں دی جاسکتی گویا حالات جیسے بھی ہوں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کی رقم پہ کٹ لگانا آئینی خلاف ورزی ہوگی ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے مطابق قابل تقسیم حصص کا 57 فیصد سے کچھ زائد حصے پہ صوبوں کو حق حاصل ہے جبکہ انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور دیگر وفاقی محصولات اس کے علاوہ ہیں۔ انھیں مسائل اور پیچیدگیوں کے باعث این ایف سی ایکسٹینشن پہ چل رہا ہے۔ بھلا ان مشکل حالات میں وفاق بہتر کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے ہر گز نہیں۔میرے ناقص فہم کے مطابق اس ترمیم کے دیے گئے مالیاتی تقسیم کے نظام نے مرکز کو تو مفلوج کیا ہی عوام پہ بھی قہر بن کے ٹوٹا ہے لین دین کے معاملات خصوصاً ارضیات (سکنی و زرعی) پہ ٹیکس ظالمانہ حد تک بڑھ چکا ہے۔جیسے پہلے ذکر آ چکا کہ سینکڑوں پراجیکٹ صوبائی حکومت کے تحت آ چکے ہیں جس کے باعث ان پراجیکٹس پہ ملنے والی بین الاقوامی امداد پہ بھی وفاق کنٹرول کھو چکا لہذا ان پراجیکٹس پہ پیش رفت اور شفافیت سوالیہ نشان ہے۔ دلچسب بات ہے اس ترمیم کے نفاذ کے بعد محسوس کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی،انسانی حقوق، منشیات کی روک تھام خواتین کے حقوق، مزدور حقوق، ہائیر ایجوکیشن سمیت بیشمار امور ایسے ہیں جن پر وفاق کا کنٹرول ضروری بلکہ بین الاقوامی مجبوری ہے نتیجتاً کئی نئے وفاقی ادارے ڈویڑن اور وزارتیں پیدا کرنا پڑیں جس سے وفاقی کابینہ و وزراء کے کمی کے انتہائی ضروری پروگرام کو شدید ضرب لگی اور یہ تعداد گھٹنے کی بجائے مزید بڑھ گئی۔ اب حال یہ ہے کہ پہلے سے ہی شدید دباو میں چلنے والی معیشت اب لاتعداد صوبائی و وفاقی وزیروں مشیروں کا بوجھ اٹھانے پہ مجبور ہے۔ المیہ یہ ہے اس ترمیم کے تحت صوبوں کو حاصل خودمختاری سے چھیڑ چھاڑ اب بہت حساس معاملہ بن چکا ہے صوبوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو چکا ہے کوئی بھی ترمیم صوبائی خودمختاری میں مداخلت تصور کی جاتی ہے واحد راستہ یہی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور ازسر نو اس ترمیم کا جائزہ لیں اور آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایسا متفقہ حل تلاش کریں جو تمام حصہ داران (سٹیک ہولڈرز)کو قابل قبول ہو ورنہ تباہی نوشتہ دیوار ہے جسے روکنا شاید ممکن نہ رہے۔