پارلیمانی / انتظامی اخراکات کم کریں

پروفیسر محمد مظہر عالم
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن پاک موجودہ سیاسی‘ آئینی‘ عدالتی اور معاشی الجھنوں میں اس حد تک گھر چکا ہے کہ بادی النظر میں اس کا کوئی شافی حل نظر نہیں آرہا۔ چونکہ سابق اور موجودہ حکمرانوں نے حصول اقتدار کے بعد اپنے اقتدار کو طول دینے اور اختیارات و مراعات کو پیش نظر رکھا‘ لیکن کوئی طویل منصوبہ بندی اور ملکی انتظامی ڈھانچہ کی ازسرنو تشکیل و تجدید کی طرف دھیان ہی نہیں  دیا۔ اس کی بنیادی وجوہات توکئی ہیں‘ جنہیں متصل تحریر میں لانا اس لئے دقت طلب ہے کہ بعض حقیقی اسباب نظر سے اوجھل اور کالم میں  طوالت کا باعث نہ بنے۔ قائداعظم نے 1910-11 ء میں مجلس قانون ساز میں ایک بل پیش کیا تھا کہ ’’بیورو کریسی کے اختیارات نچلی سطح پر منتخب نمائندوں کو منتقل کئے جائیں ‘‘جس کا مقصد یہی یہ تھا کہ افسر شاہی کے نظام کو بدلا جائے‘ لیکن برطانوی حقیقی مقتدر طبقہ اپنے اختیارات مقامی لوگوں کو کبھی بھی نہ منتقل کرتے۔ بہرحال اگرموجودہ ملکی معاشی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض حقائق منظرعام پر لانا نہ صرف وقت کا تقاضا بلکہ وطن پاک کو مستحکم کرنے کا باعث ہوگا۔ پنجاب سمیت ہر صوبہ میں ملحق محکمہ جات کے سربراہان زیادہ تر گریڈ بیس کے افسران ہوتے ہیں۔ جیسے محکمہ صحت کا ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ‘ محکمہ سماجی بہبود کا ڈائریکٹر جنرل‘ ڈائریکٹر پبلک انٹرکشن سکول‘ کالجز‘ وغیرہ سبھی گریڈ کے لحاظ سے برابر ہیں۔ ان تمام محکموں کو تین طرح کے اختیارات سونپ دیئے جائیں تو سول سیکرٹریٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ حقیقت کے پیش نظر رہے کہ تمام صوبوں کے سیکرٹریٹس کے اخراجات‘ کروڑوں نہیں اربوں میں ہوتے ہیں۔ہر محکمہ کو آن لائن بجٹ مختص کر دیا جائے اوران محکمموں کے تمام ملازمین کی ترقیاں‘ پوسٹنگ اینڈ ٹرانسفر کرکے اختیارات ان کے سربراہان کو سونپ دیئے جائیں تو اس سے بڑا انقلابی قدم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر صوبہ میں پولیس کا عہدہ ایس پی ضلع سے زیادہ ہو۔ اسے ہر ضلع کے امن و امان کے قیام کیلئے ہر قسم کے اختیارات دیئے جائیں۔ تاریخی طورپر شیرشاہ سوری سے لیکر مغلیہ عہد میں کوتوال سے بڑا کوئی منصب نہیں ہوتا تھا اور ہر کوتوال اپنے پرگنہ یعنی ضلع میں  امن و امان کے قیام اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی لحاظ سے صوبوں کو لیکر مقررہ آبادی کا تعین کرکے کم از کم ڈویڑن کی سطح پر اختیارات حقیقی معنوں میں ضلعی کونسلز کو منتقل کرکے صوبوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اختیارات اور ذمہ داری کا تعین لازمی ہو۔ جو بااختیار ہو‘ اسے ذمہ دار اور قابل احتساب بنایا جائے۔ اور جو ذمہ دار ہو اسے مکمل اختیارات دیئے جائیں۔ تمام ترقیاتی فنڈز صرف اور صرف نچلی سطح پر مقامی اداروں کو دیئے جائیں اور ہر محکمہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں تحصیل و ضلع کی سطح تک ترقیاتی کام کروائے۔ مرکزی‘ صوبائی اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز مت دیئے جائیں۔ ان اداروں کا کام قانون سازی کے علاوہ تعمیرات سے بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں ایک عرصہ سے عوام کو فوری اور سستا انصاف میسر نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ کفر سے حکومت چل سکتی ہے‘ ناانصافی سے نہیں۔ ہمارے ملک میں انصاف بروقت تو کیا امیر و غریب میں تخصیص نہیں کر رہا۔ امراء کیلئے مراعات ایک غرباء کیلئے خرافات آقائے نامدار کا فرمان عالیشان ہے کہ پہلی امتوں میں امیر جرم کرتا تو اسے چشم پوشی کی جاتی اور غریب ملزم کو رسوا کیا جاتا جس سے تباہی و بربادی ہوئی۔ آج وطن پاک میں جو صورت احوال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آیا عدالتوں میں عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ پر  کیا عمل ہو رہا ہے۔ لہٰذا معمولی نوعیت کے تنازعات کے حل کا اہتمام یونین کونسلز کی سطح پر ہوا کہ بڑی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں اسے نہ رکھا جائے۔ وکلاء کیلئے اور بھی سہولت ہوگی اور اسی سطح پر شہادتوں کے نظام کو موثر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں بعض فروعی اختلافات کو مساجد کی حد تک ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ علماء کو بھی اس کے دائرہ اختیار میں لایا جائے۔ آخری بات کہ موجودہ نظام حکومت کو جو ہمارے لئے کسی صورت بھی افادیت کا باعث نہیں‘ تمام سیاسی قائدین مل کر بدلنے کا اہتمام کریں وگرنہ پارلیمنٹری نظام ہمارے تمام معاشی مسائل میں اضافہ تو بنے گا حل نہیں کر پا رہا۔ نہایت ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن