سیّد ارتقاءاحمد زیدی irtiqa.z@gmail.com
ارتقاءنامہ
آج پاکستانی معیشت جس بحران کا شکار ہے اس کی مثال پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستانی عوام مہنگائی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ ہر آنے والا دن ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ لے کر آتا ہے۔ پاکستان کو ڈاکٹر محبوب الحق جیسے ماہر معاشیات کی جتنی ضرورت اَب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر محبوب الحق سے میری پہلی ملاقات مارچ 1982ءمیں ہوئی۔ میں اس وقت پلاننگ کمیشن اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف تھا۔ صبح کا وقت تھا پاکستان سیکرٹریٹ بلاک P میں اپنے کمرے میں جانے کے لئے لفٹ کی طرف بڑھا تو وہاں ایک صاحب پہلے سے لفٹ میں سوار ہونے کے لئے کھڑے تھے۔ اگرچہ میں ان سے واقف نہیں تھا لیکن اپنی عادت کے مطابق میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے مسکرا کر سلام کا خواب دیا اور آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف محبوب الحق کے طور پر کرایا۔ ہم دونوں لفٹ میں سوار ہوئے۔ محبوب الحق فرسٹ فلور پر اُتر گئے اور میں چوتھے فلور پر اُتر کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
تین دن بعد اخبار میں خبر چھپی کہ ڈاکٹر محبوب الحق کو جنرل ضیاءالحق نے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن تعینات کر دیا ہے۔ اس وقت ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہوتا تھا۔ 7 مارچ 1982ءکو ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کا حلف اُٹھا کر ڈاکٹر محبوب الحق نے P بلاک کے آڈیٹوریم میں پلاننگ کمیشن کے تمام ملازمین سے خطاب کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ افسران اور ماتحت سرکاری ملازمین دونوں سے کسی ڈپٹی چیئرمین نے اکٹھے خطاب کیا۔
انہوں نے اس خطاب میں پہلی بات یہ کہی کہ انہیں معلوم ہے کہ تمام سرکاری ملازمین ۔نجی اداروں کے ملازمین اور عام لوگ مہنگائی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ فی الحال فوری طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کے لئے اقدامات لیں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنے کے لئے انڈکس (Index) کا نظام نافذ کریں گے۔ یعنی ہر ماہ مہنگائی جتنے فیصد بڑھے گی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اتنا ہی فیصد اضافہ کر دیا جائے گا۔ آڈیٹوریم میں موجود تمام افراد نے اس اعلان پر بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کافی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ وہ غریبوں کی فلاح و بہبود میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ اُن کے خطاب کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ ہر سوال کا تسلی سے جواب دیتے رہے۔ سوالات کانہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ پہلی دفعہ عام سرکاری ملازمین کو ڈپٹی چیئرمین سے کھل کر سوالات کرنے کا موقع ملا تھا۔انہوں نے کئی گھنٹہ تک سوالات کے جواب دینے کے بعد کہا کہ بس اَب میں آخری سوال کا جواب دوں گا۔ دو لوگوں نے بیک وقت سوال کرنے کے لئے ہاتھ اُٹھا دیئے۔ انہوں نے پہلے شخص سے اس کا عہدہ پوچھا ، اس نے بتایا کہ وہ اسسٹنٹ چیف ہے۔ اَب انہوں نے دوسرے شخص سے اس کا عہدہ پوچھا تو اس نے جونیئر کلرک بتایا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ جونیئر کلرک کو سوال پوچھنے کا موقع دیں گے کیونکہ افسروں سے زیادہ انہیں ماتحت عملے کا احترام ہے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اپے کیریئر کا آغاز 1957ءمیں 23سا ل کی عمر میں پلاننگ کمیشن میں گریڈ18 کی پوسٹ اسسٹنٹ چیف سے کیا تھا اور پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہترین منصوبہ تھا جس سے کئی ممالک نے جن میں سنگاپور اور ملائیشیاءبھی شامل ہیں، بھرپور فائدہ اُٹھایا اور اس کے کئی نکات پر عمل کرکے بہت ترقی کی۔
ڈاکٹر محبوب الحق نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی اس کے بعد انگلینڈ میں کیمرج یونیورسٹی سے اکنامکس ایک اور ڈگر ی اور امریکہ میں ییل (Yale) یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور ہارورڈ کینڈی اسکول میں اکنامکس میں ریسرچ شروع کردی۔ ایوب خان کے دور میں وہ پاکستان آئے اور 1960ءکی دہائی میں پلاننگ کمیشن میں چیف اکانومسٹ رہے۔ڈاکٹر محبوب الحق نے بحیثیت چیف اکانومسٹ بہترین کارکردگی دکھائی اور ایوب خان کے دور میں پاکستانی معیشت کو عروج پر پہنچا دیا۔ دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ ایوب خان کی کامیاب معاشی پالیسی کا سہرا کس کے سر ہے۔ چنانچہ ایوب خان کے استعفیٰ کے فوراً بعد عالمی بینک کے صدر رابرٹ میکنامارا Robert McNamara نے ڈاکٹر محبوب الحق کو امریکہ بلالیا اور عالمی بینک میں ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ لگادیا۔ یہاں سے ڈاکٹر محبوب الحق کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔1972 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان بلایا اور وزیر خزانہ بنانا چاہا۔ لیکن انہوں نے معذرت کرلی کیونکہ وہ بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی کے خلاف تھے۔ اس لئے واپس امریکہ چلے گئے۔ 1973 ءمیں بھٹو نے ایک دفعہ پھر انہیں وزیر خزانہ بنانا چاہا لیکن انہوں نے پھر انکار کر دیا کیونکہ بٹھو کی قومیائی گئی صنعتوں اور دوسرے ا داروں کی پالیسی کے ا ثرات ظاہر ہونے لگے تھے اور پاکستانی معیشت زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ اور وہ معیشت کی تباہی کے حصہ دار نہیں بننا چاہتے تھے۔ وہ 1982ءمیں جنرل ضیا ءالحق کی درخواست پر پاکستان آئے اور ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور ایک سال بعد ہی 1983ءمیں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وزیر لگا دیئے گئے۔
10 اپریل 1985ءسے 28 جنوری 1986ءتک وزیر خزانہ رہے۔ 9 جون 1988 ءکو دوبارہ وزیر خزانہ بنے لیکن بینظیر کے وزیر اعظم بنتے ہی 4 دسمبر کو مستعفی ہو کر امریکہ چلے گئے اور نیویارک میں 1989ءمیںUNDP کے سپیشل ایڈوائزر لگ گئے۔یہاں پر انہں نے 1990 میں پہلی Human Development Report چھاپ کر بے پناہ شہرت پائی اور ان کے انتقال کے بعد بھی یہ رپورٹ باقاعدگی سے ہر سال UNDP چھاپ رہا ہے۔ محبوب الحق بہت مختصر علالت کے بعد نیویارک میں 64 سال کی عمر میں 16 جولائی 1998ءکو انتقال کر گئے ۔ انہیں نمونیہ ہوگیا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ جونیئر کلرک نے بڑا اچھا سوال کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو وہ اضافہ کر دیں گے لیکن عام آدمی کو مہنگائی سے بچانے کے لئے حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے خوردونوش کی اشیاءکے نرخ مقرر کرکے ان پر سختی سے عمل درآمد کیوں نہیں کراتی؟
ڈاکٹر محبوب الحق نے بڑی تفصیل سے جواب دیا کہ مہنگائی دراصل طلب اور رسد کے نظام میں عدم توازن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کا حل اشیاءکی قیمتیں سرکاری طور پر مقرر کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان اشیاءکی قلت بڑھ جائے گی اور چور بازاری کو فروغ ملے گا۔ مہنگائی کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ یہ اضافہ آبادی کے اضافہ سے زیادہ ہونا چاہیئے ۔ رسد اور طلب میں توازن قائم ہوگا تو قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی۔ اگر ہم ڈاکٹر محبوب الحق کی باتوں کا آج کے تناظر میں تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر سیاسی رہنما انتخابات سے پہلے اپنے منشور میں یہ تو وعدہ کر لیتے ہیں کہ مہنگائی کم کی جائے گی اور ضروری اشیاءکی قیمتوں کو فلاں سال کی سطح پر لے آئی جائیں گی لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیوں کرہوگا؟ جبکہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے کہ ضروری اشیاءکی پیداوار میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہورہی ہے۔ نئے کارخانے اور فیکٹریاں لگنے کی بجائے پرانے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پیداواری لاگت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
بجلی اور گیس کے نرخ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بتدریج بڑھ رہی ہیں۔بینک ریٹ 22 فیصد ہونے کی وجہ سے کاروباری حضرات بینک سے قرض لے کر چھوٹے یا بڑے پیداواری یونٹ نہیں لگا رہے۔ جن لوگوں کے پاس بھی کچھ جمع پونجی یا اچھے وقتوں میں کمایا گیا سرمایہ ہے وہ انہوں نے بینکوں یا قومی بچت کی اسکیموں میں جمع کروایا ہے اور گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔لوگ ملک کے حالات سے بہت پریشان ہیں اور مایوسی پھیل رہی ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ وہ قوم بہت بدقسمت ہوتی ہے کہ جس کی ہنر مند افرادی قوت سے دوسرے ملک فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں اور ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ ملک کو معاشی بحران غیر ملکی قرضوں کی دلدل اور مہنگائی کے گرداب سے نکالنے کے لئے موجودہ حکومت کو انقلابی اقدامات لینے ہوں گے۔ سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ہر شخص کو عہد کرنا ہوگا کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق ملک کی خدمت کے لئے کمربستہ ہو۔ 24 کروڑ عوام کا ملک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک بڑی نعمت ہے۔ یہاں کیا نہیں ہے۔ سمندر بھی ہیں۔ معدنیات سے بھرے ہوئے پہاڑ ہیں۔ چار موسم ہیں۔ دُنیا کی سب سے بڑی گلابی نمک کی کان ہے۔ ریکوڈک اور سنیدک کاپر، پرجیکٹ جیسے فعال منصوبے ہیں۔دُنیا کی سب سے اُونچی چوٹی اور بے شمار عالمی شہرت یافتہ پہاڑی سلسلے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے سنہری مواقع موجود ہیں۔
سیاستدانوں، حکمرانوں، عوام اور خواص سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔ محبت، لگن اور ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہر فرد کو اپنی ذمہ دا ری نبھانی ہوگی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مسائل کا اور کوئی حل نہیں ہے۔