مقبولیت اور قبولیت کا میچ

 مملکت خداداد کے جنم دن سے ہی مقبولیت اور قبولیت کے درمیان مقابلہ بازی کی فضا برقرار رہی ہے اور آج تک دونوں میں میچ پڑا ہوا ہے اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ارض پاک میں ہمیشہ قبولیت کا بول بالا رہا ہے اور مقبولیت ٹکے ٹوکری ہوتی رہی ہے لیکن آج کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے اب روائیتی انداز دم توڑنے کے قریب ہیں قوم کی بیداری کے سامنے جو بند باندھے جا رہے ہیں وہ ریت کی دیواریں ثابت ہورہی ہیں لوگوں کے اندر لاوا پک رہا ہے جسے ابلنے سے پہلے قابو کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے لیکن انتہائی بدقسمتی کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہمارے حکمت کار آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں انھیں ابھی بھی یقین ہے کہ آخر کار جیت قبولیت کی ہی ہوگی لیکن عقل اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں آخر کار وہ آخری حربہ کیا ہے جس سے انھیں یقین کامل ہے کہ وہ مقبولیت کا بھرم توڑ دیں گے۔
 جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان میں ہر آنے والے دن غصہ اور رد عمل بڑھتا جا رہا ہے لگتا ہے ہم کھلواڑ کی بلندیوں کا نظارہ کیے بغیر ٹکنے والے نہیں بہرحال اللہ ہم سب پر رحم کرے اور بہتری کی کوئی راہ نکل آئے لیکن اقدامات بتا رہے ہیں کہ کوئی بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں مقبولیت والوں کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے اور قبولیت والوں کو اپنی طاقت پر مان ہے پاکستان میں مقبولیت کو قابو کرنے کا بہترین طریقہ کارکردگی ہے۔ اگر مقبولیت کی معراج پر پہنچنے والوں کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور آج قبولیت کو طرح طرح کے پاپڑ نہ بھیلنے پڑتے بہرحال جو ہو چکا سو ہو چکا اب بھی سیاست کو سیاست سے مات دینی چاہیے۔
 الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے سے خواہ مخواہ یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ تحریک انصاف کی دال نہیں گلنی جس کے اثرات عوامی ردعمل کا شدید ہونا فطری عمل ہے فرض کریں اگر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دے دی جاتیں تو اس کے نمبر گیم پر تو کوئی اثر نہیں پڑنا تھا لیکن الیکشن میں رواں رکھے جانے والے رویہ کے اثرات کم ہو سکتے تھے قومی اسمبلی میں 22 یا 23 نشستوں کے اضافہ سے سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف کی کون سی حکومت بن جانی تھی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی 77 مخصوص نشستیں بنتی ہیں اگر آپ یہ نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیں گے تو یہ تاثر اور گہرا ہو جائے گا کہ پی ڈی ایم ٹو کو نشستیں دینے کا سفر جاری ہے ذرا غور کریں کہ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کو عوام نے اتنی نشستیں نہیں دیں جتنی نشستیں ایک فیصلہ کے ساتھ ان کی جھولی میں ڈالی جا رہی ہیں ۔ خیر پختون خواہ میں جے یو آئی نے 7 نشستیں ن لیگ 5 پیپلزپارٹی 4 جماعت اسلامی 3 تحریک انصاف پارلیمنٹرین 2 اور اے این پی نے ایک نشست حاصل کی ہے تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل نے 91 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اب 91 نشستوں والوں کو مخصوص نشستوں میں سے ایک بھی نشست نہیں مل رہی اور 22 نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کو 30 مخصوص نشستیں دی جا رہی ہیں اس طرح الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے 22نشستیں رکھنے والی اپوزیشن اب 52 نشستوں پر پہنچ جائے گی اپوزیشن کی 26 مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین اور 4اقلیتی نشستوں پر آنے والے اسمبلی کو چلنے نہیں دیں گے۔
 قومی اسمبلی میں حکومتی جماعتوں کو سکون مل جائے گا کیونکہ کارکردگی کے اعتبار سے تحریک انصاف کی خواتین زیادہ متحرک اور جارحانہ انداز رکھتی ہیں وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھیں لیکن اب چونگے میں ملنے والی نشستوں پر آنے والی خواتین حکومت کے دفاعی حصار ثابت ہوں گی اور اپوزیشن کو ٹف ٹائم دیں گی اسی طرح پنجاب میں مریم نواز کو سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف کی خواتین سے تھا اب جب وہ محروم ہو چکی ہیں تو اس کا تمام تر فائدہ ن لیگ کو ہو گا ابھی دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر فوری عملدرآمد ہو جاتا ہے یا عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناعی مل جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن