وفاق اور چاروں صوبوں میں نئی حکومتیں تشکیل پا گئی ہیں۔ آنیوالی حکومتوں کے سامنے چیلنجز ہیں۔ اربابِ اختیار اِن چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ اب یہ دیکھنے کی بات ہے۔ ا لیکشن 2024ء بڑے مخمصے اور تذبذب کی حالت میں ہوئے۔ جس سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور الیکشن کے نتائج پر سوال اٹھے۔ کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو یہ کہے کہ حالیہ الیکشن دھاندلی سے پاک تھے۔ اسی لیے کئی جماعتوں کی جانب سے احتجاج ہو رہا ہے اور احتجاج کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایک منظم سیاسی اتحاد کی بات ہو رہی ہے جو یک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل ہے۔ ایجنڈا یہ ہے کہ الیکشن دھاندلی کے خلاف شہر شہر احتجاج کیا جائے۔ اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک احتجاج کا کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں ہو جاتا۔ سندھ میں جی ڈی اے، پنجاب میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں علاقائی جماعتیں اس انتخابی دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام جو کبھی ایک دوسرے سے دور اور ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ انتخابی دھاندلی کو لے کر ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ (ممکن ہے کہ حال ہی میں ہونے والی میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل بھی رابطے کر رہی ہے۔ تاہم ان سب چیزوں سے بے نیاز منتخب نئے اراکین اسمبلی نے وفاق اور صوبوں میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا۔ جس کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں بھی حکومتیں تشکیل پا گئی ہیں اور کاروبارِ مملکت چلنا شروع ہو گیا ہے۔
وفاق میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت قائم کی ہے۔ پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی ہے۔سندھ کی حکمرانی حسبِ سابق پاکستان پیپلز پارٹی کے حصّے میں آئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو ایک بار پھر عنانِ اقتدار ملا ہے جبکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی ، ن لیگ کے اشتراک سے حکومت بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ سب جماعتوں کا اپنا اپنا منشور اور ترجیحات ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعتیں دئیے گئے منشور اور ترجیحات پر کس حد تک عمل کرتی ہیں۔ آنے والے وقتوں میں معلوم ہو گا کہ یہ ترجیحات دوام پاتی ہیں یا نہیں، یا قصّہ پارینہ بنتی نظر آئیں گی۔ عوام کو آج کل مہنگائی نے مارا ہوا ہے۔ اچھی کلاس سے تعلق رکھنے بھی مضطرب و بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ ہر طرف مسائل کے پہاڑ ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی ہمارے معاشی نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ جس سے نکلنے کی فی الوقت کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ شاید اسی لیے آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو حکومت کا حصّہ نہیں بنایا کہ اگر کوئی سیاسی ملبہ گرے تو اس کی ذمہ دار صرف ن لیگ ہو۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت بھی سمجھتی ہے کہ کن حالات میں انہیں حکومت سنبھالنا پڑی ہے۔ تاہم وہ اس امید کا اظہار کرتی ہے کہ دو سال تک ملک کو تمام کرائسز سے نکال لیں گے اور ملک اچھے حالات کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گا۔
صوبوں کی بات کریں تو بلوچستان کے علاوہ باقی صوبوں سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مستحکم حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ سندھ میں مراد علی شاہ تیسری بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ پنجاب میں مریم نواز اور خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کو پہلی بار وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملا ہے۔ مریم نواز ایک متحمل مزاج خاتون ہیں۔ امید ہے کہ وہ اپنے منصب کی پاسداری کریں گی اور اسے بہتر طریقے سے نبھائیں گی۔ علی امین گنڈا پور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جارح مزاج ہیں۔ دماغ میں ہر وقت ہلچل رہتی ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی نے وزارتِ اعلیٰ کے لیے خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کا انتخاب کیا ہے تو بہت سوچ سمجھ کر کیا ہو گا۔ علی امین اپنی وزارتِ اعلیٰ کو کیسے چلاتے اور نبھاتے ہیں۔ یہ آئندہ دو تین مہینوں تک معلوم ہو جائے گا۔سیاست میں جس طرح کا نفاق اور تفریق ہے۔ وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ سیاست، جسے کبھی عبادت کہا جاتا تھا اب تماشا بن کر رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین الزامات اور بہتان تراشی روزمرہ کا معمول ہے۔ سیاست میں جس طرح کی غلاظت گزشتہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں شاید ہی کہیں اس کی نظیر ملتی ہو۔
چھوٹی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی دونوں بڑی جماعتیں اس وقت اقتدار میں ہیں۔ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ برسرِ اقتدار جماعتوں کا یہ بڑا امتحان ہو گا۔سب سے زیادہ معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ شہباز شریف نے معیشت کی بہتری، مہنگائی میں کمی اور عوامی فلاح و بہبود کو اپنی حکومت کی ترجیحات قرار دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو درپیش معاشی مسائل کیا ہیں، تاجر برادری کو نئی حکومت سے کیا توقعات ہیں؟ برسرِ اقتدار حکومت یہ سب جانتی ہے۔ مسائل اگرچہ بڑے ہیں لیکن سر جوڑ کے بیٹھا جائے۔ معاملات میں سنجیدگی لائی جائے نیز کسی بھی قسم کا عدمِ استحکام پیدا نہ ہو تو ہم مسائل کے اس جنجال پورے سے باہر نکل سکتے ہیں۔ جس کے لیے افہام و تفہیم کی آج بہت ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اسی طرح لڑتے رہے۔ سیاسی معاملات کو اسمبلیوں کی بجائے سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کی تو ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔ شہباز شریف حکومت کو چاہیے کہ بڑے دل اور خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی اسیران کو جیلوں سے رہا کر دیں۔ جہاں حکومت مدعی ہے وہ کیس واپس لے لیں۔ تاہم 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی اچھے اقدام سے ہی اچھا ماحول اور اچھی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ماورائے آئین ہر قدم ہماری ریڈ لائن ہونا چاہیے۔ جو قومیں آئین کو کم ترین سمجھتی ہیں اور جس ملک میں آئین کی پاسداری نہیں ہوتی تو وہاں انارکی جیسے حالات پیداہو جاتے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت کو چھوٹے اور پسماندہ صوبوں کے مسائل اور ضروریات کا خیال رکھنا ہو گا تاکہ وہاں پائی جانے والی محرومیاں ختم ہوں۔ سب محسوس کریں کہ پاکستان اْن کا بھی ہے، ان پر توجہ دیتا ہے۔ کسی میں احساس محرومی پیدا ہو جائے تو اس کے بہت زیادہ نقصانات ہوتے ہیں۔لیڈر وہی ہوتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں رہتا اور بستا ہو۔ بھٹو عوامی لیڈر اور غریب کی آواز تھے۔ اجتماعات ہوتے تو عام لوگوں میں گھل مل جاتے۔ مگر اب وقت بدلا تو حالات بھی بدل گئے۔ انتہا پسندی نے عوام اور لیڈروں کے مابین فاصلے بڑھا دئیے ہیں۔ حملوں کے ڈر نے لیڈروں کو عوام سے دور کر دیا ہے۔ اب ان کے مابین ایک بڑی خلیج حائل ہے۔
تاہم پاکستان کی عوام اب بھی امید رکھتے ہیں کہ آنے والی نئی حکومت ان کے لیے ضرور کچھ کرے گی۔ ان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے گا۔ مسائل اگرچہ بہت ہیں لیکن بہتر منصوبہ بندی کی جائے، وسائل کو کرپشن سے اور برباد ہونے سے بچایا جائے تو اپنی اس برباد معیشت کو ہم ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جو پاکستان کے بعد آزاد ہوا۔ آبادی بھی ارب سے زیادہ ہے لیکن اس نے ہر شعبے میں بے مثال ترقی کی۔ معیشت کے حوالے سے اس وقت دنیا میں بلند ترین سطح پر ہے۔ ترقی کی اتھاہ وسعتوں کو چھو رہا ہے۔ امریکہ نے بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ چین ایک بڑی معاشی طاقت ہے۔ پاکستان چین کے بہت قریب ہے۔ اس کا شمار اچھے دوست ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارا ہدف ترقی و خوشحالی ہے۔ چین سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چین کی ترقی ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہیے تاکہ ہم بھی ترقی پذیر ملکوں کی صف میں شامل ہو سکیں۔ جو کبھی ہار نہیں مانتے۔ دنیا کی اقوام میں سر بلند ہو کر جیتے ہیں۔ ناممکن ہی نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم سب اپنی آئینی حدود میں رہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر لیا۔ ایک دوسرے کی حقیقت مان لی ، قانون کی بھی پاسداری کی تو ہم ایک بہتر، زندہ اور خوشحال قوم بن سکتے ہیں۔ نئی حکومت پر اس کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسا قدم اٹھائے کہ سب مل بیٹھیں۔