محاذ آرائی یا مفاہمت

بد قسمتی سے پاکستان میں طویل عرصے سے سیاسی محاذ آرائی کا تسلسل جاری ہے- 1990 کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان جو سیاسی محاذ آرائی ہوئی اس کے نتیجے میں ایک جانب سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا جمہوریت کمزور ہوئی اور دوسری جانب پاکستان معاشی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار رہا - تاریخ شاہد ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے آپس میں" میثاق جمہوریت" کیا مگر عملی طور پر دونوں سیاسی جماعتوں نے اس میثاق سے انحراف کیا- سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں ملک پر آمریت مسلط کر دی جو 2008 تک جاری رہی-  اگر پی پی پی اور مسلم لیگ نون دونوں میثاق جمہوریت پر صدق دل اور خلوص نیت سے عمل کرتیں تو آمر جرنیل کو پاکستان پر آمریت مسلط کرنے کی جرات نہ ہوتی-
 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے انتخابی دھاندلی کی وجہ سے مزاحمتی تحریک شروع کر دی- اس تحریک کے دوران لانگ مارچ کیے اور پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن کا طویل دھرنا دیا- عمران خان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے انتخابی دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیے اور محاذ آرائی کا مثبت نتیجہ نہ نکل سکا - اگر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات پر متفق ہو جاتیں تو آج پاکستان سیاسی اور معاشی حوالے سے بہت بہتر حالت میں ہوتا- 2018 کے انتخابات کے بعد بھی سیاسی محاذ آرائی کا تسلسل جاری رہا- پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے عمران خان کو الیکٹڈ وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں "سلیکٹڈ وزیراعظم" قرار دیا- اس محاذ آرائی کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی- اس تحریک میں چونکہ بیرونی ہاتھ بھی شامل تھا لہٰذا عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سیاسی اشتعال میں غیر معمولی اضافہ ہوا- 
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا- جس سے پاکستان کے عوام مہنگائی بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے انتہائی سخت مشکلات کا شکار ہو گئے- اگر 2018 کے انتخابات کے بعد انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے ہو جاتا اور مفاہمت کے ساتھ صاف اور شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنا لیا جاتا تو 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے نہ آتے- 
پاکستان اور عوام دونوں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے متحمل نہیں ہوسکتے- مبینہ طور پر2024 کے انتخابات میں دھاندلی کرکے عوام کے مقدر اور پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے- پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مستقبل آج عمران خان بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے- میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو دونوں نے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر زور دیا- جس کے لیے لازم ہے کہ محاذ آرائی کو ترک کرکے سیاسی مفاہمت کا آغاز کیا جائے - تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے غیر جانبدار اور با اختیار انکوائری کمیشن تشکیل دیں جو دھاندلی زدہ انتخابی حلقوں کا شفاف آڈٹ کرے اور ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ دے- ایسی انتخابی اصلاحات پر اتفاق کیا جائے جن کے نتیجے میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے اور کسی ادارے کو انتخابی عمل میں مداخلت کی جرات نہ ہو-
 پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں ہے- سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اب جمہوری نظام اور پاکستان کی سلامتی کے لیے سیکورٹی رسک بن چکی ہے- اگر سیاست دانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو غیر سیاسی طاقتیں ایک بار پھر ملک پر آمریت مسلط کر سکتی ہیں- سیاسی غصے اور اشتعال کو کم کرنے اور مفاہمت کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے سیاسی کارکنوں کو رہا کر دینا چاہیے - عوام جنہوں نے جوش وخروش کے ساتھ اپنی پسند کی جماعتوں کو ووٹ دیے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ محاز آرائی کے بجائے مفاہمت پر زور دیں کیونکہ محاذ آرائی کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے- عوام کو 8 فروری کی طرح بیدار رہنا پڑے گا اور سیاسی جماعتوں پر انتخابی اور معاشی اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالنا پڑے گا- مختلف حیلے بہانوں سے مفاہمت کو مسترد کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا-پارلیمینٹ کی بالادستی کو سیاسی محاذ آرائی سے نہیں بلکہ جمہوری اصولوں پر مبنی سیاسی مفاہمت سے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے- پاکستان اور عوام دوست شہری طویل اور مسلسل سیاسی محاذ آرائی کی تائید نہیں کر سکتے -الیکشن کمیشن پاکستان نے خواتین کی خصوصی نشستوں کے سلسلے میں درخواست کو مسترد کرکے بادی النظر میں سیاسی اشتعال میں اضافہ کر دیا ہے-عمومی رائے کے مطابق الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا ہے- چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے اراکین کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے - الیکشن کمیشن پاکستان نے پہلے تکنیکی بنیادوں پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا چھینا اور اب تکنیکی بنیادوں پر تحریک انصاف کو اس کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے- تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے- توقع کی جانی چاہیے کہ عدلیہ قانون اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گی اور تحریک انصاف کو اس کے آئینی حق سے محروم نہیں کیا جائے گا-

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...