زندگی کی ہر صبح ہماری لئے امید کا نیا پیام لے کر آتی ہے۔ جس نے قدم بڑھائے اور محنت کی تو اللہ تبارک تعالیٰ بھی اس کی کاوش کو کامیابی کی منزل عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر زندہ شے پانی سے پیدا فرمائی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پانی زندگی کا مظہر ہے۔ انسان، چرند ، پرند، آبی حیات، ماحولیات اور صحت مند معاشرہ بھی پانی کا ہی مرہونِ منت ہے۔ دوسرے لفظوں میں پانی تمام انسانی ضروریات کیلئے ضروری ہے۔ دنیا میں صاف پانی کے تین بڑے منبع ہیں۔ بحر منجمند شمالی، بحرمنجمند جنوبی اور کوہ ہمالیہ۔ کوہ ہمالیہ کی شمالی اور جنوبی وادیاں اس لحاظ سے زرخیز ہیں۔ اس کے شمال میں چین کےYellow اور Yangtzi دریاؤں کی وادیاں اور جنوب میں دریائے سندھ اور گنگا کی وادیوں کی وجہ سے یہ دونوں علاقے دنیا کے امیر ترین خطوں میں شمار ہوتے تھے۔
اگر پاکستان کے آبی وسائل پر توجہ دیں تو آج بھی ہمارے آبی وسائل کسی سے کم نہیں۔ سندھ طاس معاہدہ(Indus Water Treaty) سے پہلے پاکستانی دریاؤں میں سالانہ پانی کا بہاؤ 170 ملین ایکڑ فٹ (MAF) تھا جوٹریٹی کے بعد کم ہو کر 145 MAF رہ گیا۔ اس کے عوض پاکستان کو منگلا و تربیلا ڈیم اور رابطہ نہروں کیلئے فنڈز دیئے گئے۔ اس وقت بھی ہم نہروں کے ذریعے تقریباً 100 MAF پانی استعمال کر رہے ہیں جبکہ ہر سال 30 MAF اوسطاً پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے 2 ارب ڈالر کی معیشت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم 60 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں۔ اگر ڈیم بنا کر بقیہ پانی کو بھی استعمال میں لایا جائے تو صوبہ سندھ، پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان کے حصہ میں بالترتیب 15 ، 11، 6.3 اور 4.8 ملین ایکڑ فٹ پانی کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ہر صوبہ معاشی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ ماسٹر پلان بنایا جائے کہ کس طرح ہم اپنے آبی وسائل بروئے کار لا کر اپنی بنجر زمینوں کو آباد کر سکتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوبہ خیبر پی کے میں جنوبی چار اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں اور لکی مروت میں 20 لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر رقبہ، سندھ میں تھر کا 50 لاکھ ایکڑ، چولستان میں 20 لاکھ ایکڑ، بلوچستان کے سبی پلین کا 30 لاکھ ایکڑ بنجر علاقوں میں زندگی کا سفر شروع ہو سکتا ہے بلکہ سندھ میں سمندر بردی سے زمینوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ہمیں پانی کے موجودہ استعمال پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ مصر میں اسوان ڈیم سے ہر سال کاشتکاروں کو 37 MAF پانی مہیا کیا جاتا ہے ۔ جس سے 83 ملین ایکڑ رقبہ سیراب کیا جاتا ہے۔ اسکے مقابلہ میں ہم 102 MAF پانی سے صرف 40 ملین ایکڑ رقبہ آباد کر رہے ہیں۔ ہمیں بالخصوص زرعی مقاصد کیلئے پانی کے استعمال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ 1975-2000 کے مقابلہ میں 2001-20 میں ہمارے دریاؤں (سندھ 11.8 ، جہلم 16.5 ، چناب 17.7 فیصد) میں آمدہ پانی کی مقدار کم کیوں ہوئی؟
عالمی ماہرین کے مطابق پاکستان ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ ان ممالک میں صحرائے اعظم (صحارا ڈیزرٹ) کے ممالک شامل نہیں جہاں پانی کی شدید کمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک نے پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ایک ایک قطرے کی حفاظت کی۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان میں ہر دو تین سال بعد سیلاب سے پاکستان کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اربوں ڈالر کے نقصان کے علاوہ قیمتی انسانی جانوں کے آہوتی بھی دینا پڑتی ہے۔ 2010 کے سیلاب میں پاکستان کا 43 ارب ڈالر کی معیشت کا نقصان ہوا تھا اور 1781 معصوم انسان بھی سیلاب کے دوران لقمہ اجل بنے تھے۔
یہ بات نہیں کہ صوبوں کو پانی کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ ہر صوبہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے انتہائی حساس ہے۔ دراصل ناموافق حلقوں کی جانب سے اٹھائی گئی افواہوں کی وجہ سے صوبوں میں اختلافات کو ہوا ملی بلکہ بداعتمادی کی فضا بھی پیدا ہوئی۔ ایک دوسرے کے خلاف پانی کے زائد استعمال اور پانی چوری کرنے کا فتویٰ لگانا معمول کی بات بن چکا ہے۔ سب سے زیادہ ایشو پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم کا آتا ہے۔ اگر (دریائے سندھ ) کوٹ مٹھن کے مقام پر بیراج بنا دیا جائے تو سندھ کی کسی بھی ڈیمانڈ پر بآسانی صرف 12 گھنٹے میں پانی سندھ کی گدو جھیل میں پہنچ جائیگا۔ اسکے علاوہ بلوچستان کی پٹ فیڈر کینال کو بھی گدو کے بجائے کوٹ مٹھن سے براہ راست پانی فراہم کرنے سے ہر صوبہ کو دریاؤں کے مین چینل سے براہ راست پانی ملے گا جس سے صوبوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ختم ہونے میں مدد ملے گی۔
اب اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے تمام دستیاب پانی کو کس طرح مستعمل بنا سکتے ہیں۔ اصل بات تو تمام سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ تمام آبی ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ سیلابی پانی کا 90% زور تربیلا سے نیچے ہوتا ہے۔ اس پانی کو کنٹرول کرنے والا واحد مقام کالاباغ ہے۔ یہاںپر ڈیم بنا کر نہ صرف پانی کو کنٹرول کی جا سکتا ہے بلکہ (Gravitational Flow) زمینی بہاؤ کے ذریعے خیبر پی کے کا پانی جنوبی پانچ اضلاع کی آباد کاری کیلئے بھی دیا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں چولستان اور سندھ میں تھر کے علاقے انتہائی وسعت اور زرخیزی رکھتے ہیں لیکن پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے آباد ہیں۔ تھر میں جب بھی کبھی تھوڑی سی بارش ہوتی ہے تو ہر طرف زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس کا حل بھی کالاباغ ڈیم سے ہی نکلتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے وقت کالاباغ ڈیم اولاً منظور ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کالاباغ جہلم لنک کینال بھی منظور ہوئی تھی۔ کالاباغ ڈیم بننے کے بعد کالاباغ رسول لنک نہر کے ذریعے موسم گرما میں دریائے سندھ کا پانی فاضل پانی نہ صرف استعمال میں لایا جا سکتا ہے بلکہ اس طرح منگلا جھیل جو 4/5 سال میں ایک مرتبہ بھرتی ہے۔ ہر سال منگلا جھیل بھری جا سکے گی بلکہ روہتاس ڈیم (جہلم) کو بنا کر فاضل پانی کا بہترین استعمال عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ منگلا مرالہ لنک کینال کے ذریعے دریائے چناب کے علاقوں کو بھی پورے نظام میں شامل کیا جا سکے گا بلکہ مرالہ اور دیگر لنک نہروں کے ذریعے راوی اور ستلج کے مردہ ہوتی وادیوں کو بھی زندگی کی نئی لہر مل سکے گی۔
دریائے ہاکڑا کی گزرگاہ ضلع بہاولنگر کی تحصیل فورٹ عباس کے جنوب میں مروٹ سے گزرتی تھی جو قلعہ دراوڑ سے ہوتی ہوئی سندھ میں داخل ہو جاتی تھی۔ جہلم اور چناب دریاؤں کے ذریعے نہ صرف راوی اور ستلج کی وادیوں کی ماحولیات کو بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ دریائے ستلج پر ہیڈ سلیمانکی کے ذریعے پانی فراہم کرکے ایک دفعہ پھر ہاکڑا دریا کو پانی فراہم کرکے نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ جس سے چولستان کا 20 لاکھ اور تھر کا 50 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہو سکتا ہے۔ ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے کہ تھر کا بیشتر علاقے سطح سمندر سے 75 میٹر اونچے ہیں جبکہ سندھ کی گدو جھیل سطح سمندر سے 70 میٹر اونچی ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تھر اور چولستان کی آبادکاری کیلئے دریائے ہاکڑا کی بحالی انتہائی ضروری ہے۔سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے راوی، بیاس اور ستلج دریاؤں کا تمام پانی بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔ ان دریاؤں میں ماحولیات کی بہتری اور آبی و جنگلی حیات کیلئے پانی کی فراہمی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ موسم سرما میں 10سے20 ہزار کیوسک اور موسم گرما میں 50 ہزار کیوسک پانی ان دریاؤں سے گزرے۔ اس طرح نہ صرف ان وادیوں میں ماحولیاتی بہتری آئے گی بلکہ اس پانی کو چولستان اور تھر کی آبادکاری کیلئے استعمال کرکے قومی ترقی میں بہتر قدم اٹھایا جا سکے گا۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے۔ فاضل پانی کو کنٹرول کرنے سے بلوچستان کے حصہ میں 4.8 ملین ایکڑ فٹ پانی کا اضافہ ہوگا۔ اسکے ساتھ ہی بلوچستان میں بہنے والے 17 دریاؤں کو بھی منصوبہ بندی کرکے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
آبی وسائل بروئے کار لائے جائیں تو پاکستان کی بیش بہا بنجر زمینوں کو آباد کرنے سے سالانہ 9 ارب ڈالر کی خوراک کی درآمدات کا خاتمہ ہوگا بلکہ سستی ترین بجلی کا تحفہ بھی ملے گا۔ پاکستان تقریباً 150ارب یونٹ سالانہ پیدا کرتا ہے۔ جس کی اوسط فی یونٹ لاگت 13 سینٹ آتی ہے۔ اس میں سے 37 ارب یونٹ ہائیڈل کے ذریعے پیدا کئے جا رہے ہیں جن کی فی یونٹ لاگت صرف 3.85 روپے ہے۔ آبی وسائل بروئے کار لا کر نہ صرف خوراک میں خود کفالت سے آگے بڑھیں گے بلکہ سستی ترین بجلی پیدا کرکے بجلی اور فیول کی مہنگائی سے بھی چھٹکارا حاصل کریں گے۔ یہی نہیں! سستی بجلی کے ذریعے اپنے خام مال کی ویلیوایڈٹ مصنوعات سے عالمی منڈیوں میں بھی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں گے۔