بدھ‘  24   شعبان المعظم 1445ھ ‘  6  مارچ  2024ء

نام کے ساتھ بھٹو لگانے سے کوئی بھٹو نہیں بن جاتا۔ بیرسٹر گوہر 
یہ بات کم از کم ایک ایسے سیاستدان کے منہ سے زیب نہیں دیتی جو خود بھی کبھی آصف زرداری کی جماعت کا ممبر تھا اور ان کی نظر کرم سے ٹکٹ بھی الیکشن لڑنے کے لیے حاصل کرتا تھا ۔ ویسے بھی عمر کے اس حصہ میں گوہر جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ بلاول ان سے بہت چھوٹے اور نوآموز سیاست دان ہیں۔ اس کا مقابلہ سیاسی میدان میں ہی سجتا ہے۔ ذاتیات پر اتر کر بات کرنا ان کو زیب نہیں دیتا۔ ہاں اگر بلاول کی طرف سے ایسا طرز بیان اختیار کیا گیا ہوتا تو لوگ خود انہیں ملامت کرتے۔ اب بیرسٹر گوہر کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ کل تک وہ آصف زرداری کے نو رتن تھے‘ اب کپتان کے وکٹ کیپر ہیں۔ ہماری سیاست میں سنجیدگی سے زیادہ جذباتیت کو عروج ملتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو پسند کرنے لگے ہیں جو زبان و بیان پر قابو نہیں رکھتے اور عوام بھی اس طرز بیان کے استعمال پر فخر کرتے ہیں اور اسے بہادری گردانتے ہیں‘ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب کسی سیاستدان کی عزت محفوظ نہیں۔ مخالفین انہیں بدترین الفاظ میں پکارتے ہیں۔ اس طرح ادب و آداب کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ دن رات میڈیا پر یہ سب کچھ دکھایا بھی جاتا ہے یعنی لوگوں کو ازبر کرا کے معلوم نہیں ہمارے سیاستدان عوام کی کس طرح کی تربیت کر رہے ہیں۔ یہ سراسر انتشار کا راستہ ہے۔ اس سے فلاح کی منزل پر ہم کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب تو اسمبلی میں یہی تماشہ لگتا ہے۔ اس کی شروعات کرنے والے شاید بھول گئے تھے کہ کبھی ان کے حوالے سے بھی ایسی ہی زبان استعمال ہوئی تو کیا ہو گا۔ ملک میں سرپھٹول کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہونا۔
٭٭٭٭٭
ٹنڈو الہ یار کے 2 سرکاری سکول بھینسوں کے باڑے میں تبدیل محکمہ تعلیم بے خبر رہا 
ہو سکتا ہے وہاں کسی بڑے بااثر زمیندار نے اپنی بھینسوں اور کٹوں کو تعلیم دلوانے کے لیے سرکاری سکولوں کا یہ نیا استعمال سوچاہو۔ ویسے بھی جب مضبوط عمارت وہ بھی کھلی ڈھلی میسر ہو اور وہاں تعلیم دینے کا رواج ہی نہ ہو اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر مفت تنخواہیں لے رہے ہوں۔ آس پاس کے دیہات کے سینکڑوں بچے سکول جانے کی بجائے گلی محلوں میں اپنی عمر کا یہ حصہ جو تعلیم کے لیے مخصوص ہوتا ہے‘ ضائع کر رہے ہوں تو ان خالی عمارتوں میں یا تو بھوت بسیرا کریں گے یا نشئی اور چور یا پھر بھینس گائے اور گدھے گھوڑے باندھے جائیں گے۔ یہی کچھ ٹنڈو الہ یار سندھ میں ہو رہا ہے۔ یہ تصویر کا ایک پہلو ہے ورنہ ایسے سینکڑوں سکول سندھ میں جانوروں کو تعلیم دینے کے لیے باڑوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ صرف سندھ کا ہی کیا رونا بلوچستان میں بھی یہی حال ہے وہاں چونکہ بھینسوں اور گائیوں کا زیادہ نہیں اس لیے وہاں بھوت بسیرا کرتے ہیں یا چور اور ڈاکو یا پھر بااثر سیاستدان اسے گودام بنا کر رکھتے ہیں۔ پنجاب میں بھی زیادہ نہیں مگر کئی مقامات پر ایسے سکول برائے جانوراں یعنی باڑہ بنے نظر آتے ہیں۔ اب جس ملک میں ناخواندگی کی شرح بہت ہو وہاں کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اب بچوں کی تعلیم کی فکر کریں۔ جانوروں کو بہت پڑھا لیا ہم نے۔ کیا ایسے بنتا ہے پڑھا لکھا ملک۔ ایسے ہوتے ہیں پڑھے لکھے معاشرے۔ تعلیم پر ہر حکومت سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ مگر اس کے وہ ثمرات نظر نہیں آتے اس پر لوگ بھی پریشان ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
الیکشن خیبر پی کے میں 31 فیصد دھاندلی ہوئی۔ اپسوس کی رپورٹ 
اب اس رپورٹ کو پڑھ کر تو افسوس ہوتا ہے اس کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی ۔پورے ملک میں دھاندلی دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے۔ صرف خیبر پی کے میں پراسرار خاموشی تھی‘ اب کی رپورٹ کے مطابق وہاں بھی جی کھول کر دھاندلی ہوئی اور اس دھاندلی کی شرح جتنی تھی۔ اتنی تو شاید ہی کسی اور صوبے میں رہی ہو گی۔ مگر خیبر پی کے میں چونکہ وہ جماعت اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے جو پورے ملک میں شور مچا رہی ہے یوں چور مچائے شور والا کام نہایت احسن طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اب کون اس صوبے میں الیکشن کی دھاندلی کے خلاف آواز بلند کرے گا کیونکہ 
بستی کے سارے لوگ ہی آتش پرست تھے 
گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا 
کیا پی ٹی آئی والے خیبر پی کے میں ہونے والی دھاندلیوں کا نوٹس لیں گے‘ اس کے خلاف بھی دھرنا دیں گے عدالتوں میں جائیں گے یا احتجاج کریں گے۔ نہیں شاید ایسا کبھی نہیں ہو گا کیونکہ جہاں وہ خود کامیاب ٹھہرے ہیں وہاں خود تو کیا کسی اور کو بھی وہ احتجاج کرنے نہیں دیں گے اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو خیبر پی کے اسمبلی میں مسلم لیگ نون کی رکن ثوبیہ شاہد کے ساتھ ہوا تھا۔ خاتون ہونے کے باوجود ان کا خیال نہیں کیا گیا۔ سڑکوں پر احتجاج کرنے والے مخالفین کا جو حشر ہو گا اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے لب و لہجے میں بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو خاصا ڈکٹیٹرانہ ہے۔ 
٭٭٭٭٭
پاکستانی باکسر ساتھی خاتون باکسر کے بیگ سے 88 ہزار روپے لے کر فرار 
کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے مگر یہاں تو کھلاڑی ہی چور نکلا۔ باکسنگ سے تو چلا گیا مگر ساتھ ہی اپنی ساتھی باکسر کو بھی دیارِغیر میں کنگال کر گیا۔ کتنی بری بات ہے باکسر نے اگر اٹلی جا کر بھاگنا ہی تھا روپوش ہونا ہی تھا تو پی آئی اے کی ائیر ہوسٹس یعنی فضائی میزبانوں والا طریقہ واردات اپناتے جو کینیڈا جا کر یوں سلپ ہو جاتے ہیں کہ عملہ انہیں ڈھونڈتا رہ جاتا ہے اور ان کے بغیر ہی واپس آ جاتا ہے۔ اب پی آئی اے والوں اور محکمہ کھیلوں کو چاہیے کہ وہ غیر ممالک میں ایک آدھ کھلاڑی اور فضائی میزبانی کا تجربہ رکھنے والوں کو رابطے میں رکھے تاکہ جو وہاں جا کر غائب ہو اس کی جگہ خانہ پری کے لیے اسے طلب کیا جائے۔ فی الحال تو فوری طور پر اس خاتون باکسر کی مالی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی جائے جو ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ والی کیفیت سے گزر رہی ہو گی۔ دیارِغیر میں لٹ جانا خاصہ تکلیف دہ امر ہوتا ہے۔ یہ شکر ہے کہ اس کے ساتھ ٹیم کے باقی ارکان ہیں۔ اب اس خاتون باکسر کو بھی چاہیے تھا کہ وہ یہ رقم انتظامیہ یا کم از کم ہوٹل والوں کے پاس رکھواتی تاکہ کم از کم محفوظ تو رہتی‘ کوئی چور کھلاڑی اس پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب نہ ہو پاتا۔ ہمارے یہ باکسر آج کل اٹلی میں اولمپکس کھیلوں کے کوالیفائی رائونڈ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ جہاں یہ واردات ہوئی ۔ویسے یہ اس باکسر کی زیادتی ہے وہ ویسے ہی بھاگ جاتا غائب ہو جاتا تو کم از کم اسے چور کا خطاب تو نہیں ملتا۔ البتہ دعا کرتے ہیں وہ جہاں بھی جائے خیریت سے رہے۔  پولیس کے ہتھے نہ چڑھے اب تو بددعا دیتے ہوں گے کہ خدا کرے پکڑا جائے۔ 
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن