ملک کے چوبیسویں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔صدر عارف علوی نے ان سے ایوان صدر میں حلف لیا۔تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، پاکستان مسلم لیگ (نواز)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کے رہنما بھی شریک ہوئے۔ مختلف ممالک کے سفیروں نے بھی وزیراعظم کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شہباز شریف کو مبارکباد دی ہے۔ ترک صدر طیب اردگان نے شہباز شریف کو فون کیا۔ دیگر ممالک کے سربراہان کی طرف سے بھی شہباز شریف کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہو گیا، اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ملک کو بحران سے نکالنے کا مرحلہ درپیش ہے جو ایک دویا تین جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ہر جماعت کو ایک ساتھ چلنا ہوگا۔ تمام جماعتوں کو جن کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے سب کو چند نکات پر ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے نظریات پر ضرور کاربند رہیں اور اپنا اپنا ایجنڈا تھامے رکھیں لیکن ملک اور عوام کا خیال بھی کریں۔ قوم کی طرف سے منقسم مینڈیٹ دیا گیا جس کی وجہ سے مرکز میں مخلوط حکومت بنی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس حکومت کو لیڈ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر اتحادیوں کو ساتھ ملائے رکھنے کے لیے حکومت کو سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔
تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر پارلیمان میں موجود ہے۔ اس کے الیکشن پر جائز یا ناجائز تحفظات ہیں اس کے باوجود اس کے اس اقدام کو سراہا گیا کہ اس نے الیکشن سے پہلے ،الیکشن کے دوران اور بعد از الیکشن کسی ایک مرحلے پر بھی بائیکاٹ کا آپشن اختیار نہیں کیا۔ اس کے ارکان قومی اسمبلی میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے رہنماؤں کی طرف سے سخت جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا۔کچھ رہنما برملا کہہ رہے ہیں کہ ان کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے، لہٰذا وہ حکومت اور نظام کو نہیں چلنے دیں گے۔نظام کو نہیں چلنے دیں گے تو نقصان کس کا ہوگا ؟ حکومتی جماعتوں کو پریشانی ضرور ہوگی مگر سب سے زیادہ نقصان بہرحال عوام کا ہوگا جس نے آپ کو بھی پارلیمان میں مینڈیٹ دے کر بھیجا ہے۔ اپریل 2022ء میں جب عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی تو اس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ صدر عارف علوی نے اس وقت ان سے حلف لینے سے انکار کردیا۔وہ پہلے دن کی طرح آج بھی پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس بار شہباز شریف سے حلف لیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کو قومی مفاد کا ادراک ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے بھی ایسے ہی احساس کرنے کی امید ہے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ایک عرصے تک عمران خان یہ بیانیہ لیے پھرتے رہے کہ 35 پنکچر لگے ہیں، کئی سال بعد ان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ تو سیاسی بات تھی۔ یہ عمران خان کی طرف سے سیاسی بیان یا بات ہو سکتی ہے لیکن جو عمران خان پر اعتماد کرنے والے لوگ ہیں وہ ان کے اس بیانیے سے چمٹے رہے۔ ان کا نظام پر اعتماد کتنا عرصہ متزلزل رہا۔ اب ایک بار پھر تحریک انصاف کی طرف سے فارم 45 کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ان کی 180 نشستیں بنتی ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں جو معاملات گئے ہیں وہ صرف 22 ہیں۔ ان میں تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کے بھی ہیں۔ اگر یہ 22 کی 22 سیٹیں بھی تحریک انصاف کو دے دی جاتی ہیں تو اس کی کل تعداد 115 سے زیادہ نہیں بنتی۔
ریاستیں ارتقائی عمل سے گزر کر ہی مضبوط و مستحکم ہوتیں اور کندن بنتی ہیں۔ امریکا جس طرح آج طاقتور ہے، وہ معرضِ وجود میں آتے ہی ایسا نہیں بن گیا تھا۔ اس کی مضبوطی اور استحکام کے پیچھے دو ڈھائی سو سال کی جدوجہد ہے۔ اسی طرح سے برطانیہ نے بھی دو چار سال کے استحکام کے بعد ہی دنیا کو تسخیر کرنا شروع نہیں کر دیا تھا، ان کی طاقت کے پیچھے بھی صدیوں کی محنت اور جدوجہد شامل ہے۔ تاریخ کے فیصلے کوئی ایک جماعت نہیں کر سکتی، یہ قومیں اور عوام کرتے ہیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔ وہ اس حکومت کی کارکردگی کو دیکھیں گے اور پانچ سال کے بعد اپنا فیصلہ دیں گے۔ کسی بھی جماعت یا جماعتوں کی حکومت ہو ، اس سے یا نظام سے بغاوت کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہی ہوتا ہے۔
حزبِ اختلاف کے پاس حکومت کو آئینہ دکھانے اور اس کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنے کا بہترین موقع ہے۔ جس طرح سالانہ اکنامک سروے حکومت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ،اس میں حکومت اپنی کارکردگی پیش کرتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن حکومت کی خامیوں اور کمزوریوں کو ہر سال ایک وائٹ پیپر کی صورت میں عوام کے سامنے رکھ سکتی ہے۔ تحریک انصاف انقلاب لانے کی دعویدار ہے۔ انقلاب لائیے، ضرور لائیے مگر یہ انقلاب سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں آ سکتا۔انقلاب عوام کی مثبت اور بہترین خطوط پرذہن سازی کر کے ہی برپا سکتا ہے۔
تحریک انصاف جو کچھ کر رہی ہے اس سے عوامی رائے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی اور مخالف۔ ایسی تقسیم کسی بھی طور ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں۔ ملک ترقی کی شاہراہ پر اسی صورت میں گامزن ہو سکتا ہے جب سیاستدانوں کے مابین بہترین قومی مفاد کے چند ایک نکات پرہی سہی پر اتفاق رائے ہو اور کہیں بھی نظام کے خلاف بغاوت کی سوچ نہ پائی جائے۔ تحریک انصاف کی عوام میں پذیرائی کے حوالے سے دوسری رائے نہیں۔ آج پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن رکھنے کی چابی بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ہاتھ میں بھی آ چکی ہے۔ امید یہی کرنی چاہیے کہ وہ بہترین قومی مفاد میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرے گی کیونکہ یہ ملک اتنا ہی ان کابھی ہے جتنا کسی اور کا ہوسکتا ہے،لہٰذا تحریک انصاف حکومت نہ چلنے دینے کے بیانیے پر نظرثانی کرے۔