اس تاریخی حقیقت سے سب واقف ہیں کہ آزادی سے قبل لاہور میں علمی ادبی، نصابی حتٰی کہ دینی کتابوں کی طباعت اور اشاعت پر بھی ہندوﺅ ں کا قبضہ تھا ۔ عطر چند کپور اور گلاب سنگھ اینڈ ہنز اس شعبے پر چھائے ہوئے تھے۔ متحدہ پنجاب میں ان دو اداروں کی مکمل اجارہ داری تھی جسے توڑنے کے لئے لاہور کے ایک ایسے خاندان کا نوجوان میدان عمل میں کود پڑا جس کا آبائی پیشہ تجارت نہیں تھا۔ یہ نوجوان برکت علی تھا جو 1902ءمیں معزز الراعی خاندان کے فرد جلیل چودھری محمد بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے کارپوریشن سکول میں حاصل کی لیکن میٹرک اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے پاس کیا۔ ایف اے کا امتحان فارمن کرسچین کالج سے اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ان دونوں کالجوں میں ان کا شمار اول درجے کے ذہین اور اختراع پسند طالب علموں میں ہوتا تھا۔ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج کی تعلیم نے طالب علم برکت علی کو کشادہ نظر بنایا۔ انہوں نے 1929ءمیں نصابی کتابیں چھاپنے کا ادارہ ”پنجاب بک ڈپو“ قائم کیا اور میدان اشاعت میں غیر مسلم ناشروں کی اجارہ داری کا مقابلہ کیا۔ ممتاز افسانہ نگار میرزا ادیب نے لکھا ہے”میں جب رسالہ ”ادب لطیف“ سے وابستہ نہیں ہوا تھا تو پنجاب بکڈپو میں چودھری صاحب سے روز تو نہیں البتہ تیسرے چوتھے دن ضرور ملاقات ہو جاتی تھی اور یہ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا۔ چودھری صاحب کو ادب سے فطری طور پر دلچسپی تھی اس لئے انہوں نے اپنے ادارے میں ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی۔ اس لائبریری سے جن لوگوں کو مطالعہ کا شوق ہوتا تھا وہ اپنے مطلب کی کتابیں نکلوا کر لے جاتے تھے“ (ادب لطیف دسمبر 1990ئ) اس ادبی ذوق کی مزید پرورش کے لئے چودھری برکت علی نے 1935ءمیں حکیم احمد شجاع مصنف ”خون بہا“ کے مشورے سے ایک ادبی رسالہ جاری کیا جس کا نام ”ادب لطیف“ تجویز کیا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر طالب انصاری مقرر کئے گئے لیکن بعد میں مرزا ادیب نے اسے ایک عہد ساز رسالہ بنا دیا۔ ”ادب لطیف“ کا ایک سال مکمل ہوا تو چودھری برکت علی نے نصابی کتب کے کاروبار کی توسیع کی اور ادبی کتابوں کی اشاعت کےلئے 1936ءمیں مکتبہ اردو قائم کیا۔ دوسری طرف مسلمان نوجوانوں کو اشاعت کتب کی طرف راغب دیکھ کر ان کو پبلشرز یونائیٹڈ نام کی تنظیم میں متحد کر دیا اور اردو کے ساتھ نگریزی کے شعبے بھی قائم کئے۔ چودھری برکت علی کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے 1944ءمسلم تعلیمی مجلس لاہور میں قائم کی اور اس کے زیر اہتمام پہلا مسلم ماڈل ہائی سکول ملتان روڈ پر قائم کیا جس کے ساتھ لاہور سے باہر کے طالب علموں کے لئے رہائش کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ بعد میں مصری شاہ، موہنی روڈ، اردو بازار اور چوبرجی میں بھی اس طرح کے تعلیمی ادارے کھولے گئے۔ ان اداروں میں مسلمان طلباءکی تعلیم و تربیت دینی اصولوں پر کی جاتی اور شخصیت سازی پر توجہ دی جاتی تھی۔ ان کی کامیابی چودھری صاحب کی مرہون منت تھی۔ چودھری برکت علی کی کشادہ نظری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ دینی مزاج کے سیاسی نوجوان تھے لیکن انہوں نے ”ادب لطیف“ کی ادارت کے لئے مختلف ادوار میں راجندر سنگھ بیدی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی جیسے ادیبوں کو منتخب کیا جو اشتراکی نظریئے کی ترقی پسند تحریک کے رکن تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند ادیبوں نے جن رسائل کا بائیکاٹ کیا ان میں ”ادب لطیف“ بھی شامل تھا۔ چودھری برکت علی نے احمد ندیم قاسمی کو لکھا ”زندگی اور ادب کی ترقی پسند قدروں پر میرا عقیدہ اتنا پختہ ہے کہ میں آپ لوگوں کے عتاب سے بوکھلایا نہیں بلکہ مرزا ادیب صاحب کی مدد سے ترقی پسند ادب ہی پیش کرتا رہا ہوں“ ”ادب لطیف“ اب بھی شائع ہو رہا ہے اس کی مدیر چودھری برکت علی کی صاحبزادی محترمہ صدیقہ بیگم ہیں اور ”ادب لطیف“ لاہور کا سب سے قدیم اور کامیاب ادبی رسالہ ہے جسے اردو دنیا کے بیشتر نامور ادیبوں کا تعاون حاصل ہے۔ چودھری برکت علی نے بڑی فعال زندگی بسر کی لیکن لمبی عمر نہیں پائی۔ وہ 8 اگست 1952ءکو فوت ہوئے تو صرف پچاس برس کے تھے۔ آیئے ان کی 47 ویں برسی پر ان کے لئے دعائے مغفرت کریں حق تعالیٰ ان کو مقام سعید عطا فرمائے۔