پیپلز پارٹی کی انتہا درجے کی کرپشن اور بد عملی کی وجہ سے کئی ادارے ڈوبے اور بجلی و گیس کے بحران سے پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا۔ مسلم لیگ نے انتخابی مہم کے دوران بڑے بلند بانگ دعوے اور وعدے کیے۔پنجاب میں اس کی کارکردگی قابل رشک نہیں تھی لیکن پیپلز پارٹی کی مرکز اوردوسرے صوبوں میں حکومتوں سے بہتر رہی۔عوام نے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے تنگ آکر مسلم لیگ پر اعتماد کا اظہار کیارہی سہی کسر 35 پنکچروں نے پوری کردی جس کے صلے میں ایک شریف آدمی ذکا اشرف کی قربانی دے کر میاں نواز شریف نے نجم سیٹھی کو چیئر مین کرکٹ بورڈ لگا دیا، عدالت نے ذکا اشرف کو بحال کیا تو وزیر اعظم نواز شریف نے کرکٹ بورڈ کا آئین اسی طرح توڑکر ذکاء اشرف کو برطرف کر کے نجم سیٹھی کو دوسری بار کرکٹ بورڈ کا چیئر مین لگادیا جس طرح مشرف نے 1999ء میں آئین توڑ کر نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران میاں نواز شریف دعوے کرتے تھے کہ ان کے پاس ہر شعبے کی ٹیم ہے وہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھائے گئے ۔ وہ جھانسے میں آگئے اور ان پر اعتماد کر کے جتا دیا۔ عوام سے بس انہوں نے اتنا ہی کام لینا تھا۔اس کے بعد گویا عوام کے لیے چراغوں میں روشنی نہ رہی جبکہ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں کے بھی گھر دھن دولت اور مراعات کی روشنیوں سے جگمگ کررہے ہیں۔ریلوے ،پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے ادارے مکمل طور پرخسارے کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔واپڈا جام ہوچکا تھا۔میاں نواز شریف نے روایتی کابینہ بنائی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ میاں صاحب اپنے رشتہ داروں اور چمچوں کوآگے لے کر آئے۔ میرٹ اور اہلیت کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حوالے گیا گیا تو انہوں نے ذاتی محنت اور اہلیت کی بنا پر اسے چند ماہ میں اپنے پائوں پر کھڑا کردیا۔وہ شاید اس کو مکمل طور پر خسارے سے نکا ل چکے ہوتے لیکن وہ دوسرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ٹی وی چینل والوں کو کوئی اور دستیاب نہ ہو تو خواجہ سعد رفیق کو آسانی سے ٹی وی پر لے آتے ہیں۔ مشرف نے باہر جانا ہے تو کو بھجوانے والے ان سے نہیں ڈریں گے۔وہ اس معاملے میں جذباتی نہ ہوا کریں۔
بجلی کا بحران پیپلز پارٹی کی کرپشن کا ایک شاہکار ہے ۔ بجلی بحران پر قابو پانے کے نام پر راجہ پرویز اشرف نے رینٹل پلانٹس سے کافی پیسہ کمایا۔میاں صاحب نے یہ شعبہ خواجہ آصف کو بجلی بحران پر قابوپانے کے لیے یا پیسہ بنانے کے لئے دے دیا۔بجلی کا بحران پہلے دن کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے اس بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عابد شیرعلی کو خواجہ آصف کا نائب بنا یا، بجلی کی پیداوار اور لوڈشیڈنگ میں کمی کے حوالے سے دونوں کی کارکردگی راجہ رینٹل جیسی ہے۔ان دونوں کو بھی غیر ضروری معاملات میں دخل اندازی کا شوق ہے۔ خواجہ آصف ہر دوسرے روز دنیا کے کسی بھی موضوع پر گفتگو کے لئے ٹی وی چینل پر موجود ہوتے ہیں۔ کل کہہ رہے تھے بڑی نادہندہ حکومت ہے ۔ یہ بات میاں نواز شریف کے کان میں کرنے والی ہے نہ کہ میڈیا میں کرنے کی ۔ عابد شیر علی کا پورا زور بجلی چور ی کی روک تھام پر ہے ۔وہ اس میں کامیابی بھی حاصل کررہے ہیں۔ اسی بنا پر ان کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد لائی گئی۔ خیبر پختون والے بھی ان کے خلاف بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔
وزیر مملکت برائے پانی وبجلی چودھری عابد شیر علی بھی اپنا محکمہ جاتی کام چھوڑ کر تحریک انصاف پر برس پڑے کہتے ہیںکہ ’’تحریک انصاف کے کارکن برساتی مینڈک ہیں۔ عمران خان الزامات نہ لگائیں بلکہ ثبوت کے ساتھ بات کریں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف توجہ دیں۔‘‘ اس بیان کے جواب میں تحریک انصاف کی طرف سے پھولوں کے گلدستے تو نہیں آئینگے۔ یہ سلسلہ جوں ہی جواب آں غزل کو صورت میں چل نکلے گا ۔ایسے کاموں کے لئے وزیراعظم نواز شریف نے پرویز رشید کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے ، وہ اسے احسن طریقے سے ادا کررہے ہیں کیونکہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر دکھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اہلیت اور نااہلیت سے قطع نظر ہر وزیر اور مشیر محنت اور دیانتداری سے کام کرے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور کئی بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ میاں نواز شریف ان کو قابو میں رکھیں تو میاں نواز شریف کی نیک نامی ہوگی ۔سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنے وزرا کو کنٹرول کر پائیں گے ۔
نواز شریف بے مہار وزیروں کوکنٹرول کرسکتے ہیں؟
May 06, 2014